کربِ آگہی Awareness Urdu Medium
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
حال ہی میں سابق وزیرمشہور سیاسی قائد جناب عبد الباری صدیقی کے ایک بیان کی وجہ سے سیاسی گلیاروں میں بھونچال آگیا، انہوں نے ایک کانفرنس میں کہہ دیا تھا کہ ”ہندوستان اب رہنے کے لائق نہیں رہا، فرقہ وارانہ کشیدگی کا خطرناک وخوفناک ماحول تیزی سے پھیل رہا ہے ، اب یہاں امن پسند لوگوں کے لیے جینا محال ہو گیا ہے ، اس لیے میں نے اپنے بچوں سے( بیٹا جو امریکہ میں رہتا ہے اور بیٹی جو لندن میں رہتی ہے) کہا ہے کہ وہیں رہیں اور وہاں کی شہریت مل جائے تو وہاں کی شہریت بھی لے لیں۔“
اس بیان پر جو تبصرے آئے اس میں غیروں نے دل کی بھڑاس نکالی اور انہیں پاکستان چلے جانے تک کا مشورہ دے دیا ، عظیم اتحاد کے بعض رہنماؤں نے اسے بز دلی سے تعبیر کیا اور انہیں اس ملک میں ان کی ذاتی حصولیابیاں گنائیں، یعنی انہیں اس ملک نے ایم ایل اے بنایا، وزیر بنایا وغیرہ وغیرہ، سب نے ان کے بیان کے ”اب“ کو نظر انداز کر دیا ، عبد الباری صدیقی کی قدر ومنزلت اور عہدے مناصب انہیں یہیں ملے، یہ ٹھیک ہے،لیکن وہ اس نفرت بھرے ماحول اور فرقہ واریت کی بات کر رہے ہیں، جو ”اب“ پیدا ہو گیا ہے، او ریہ کوئی ایسی بات نہیں ہے، جسے انہوں نے پہلی بار کہا ہے، اس ملک کے فلم ادا کار ، دانشور اور سیاست داں پہلے بھی اس بات کو با ربار کہہ چکے ہیں، ہر بار اس ملک میں ایسے بیان پر طوفان کھڑا ہوا ہے، راہل گاندھی بھارت جوڑو یاترا کے درمیان جب بار بار یہ کہتے ہیں کہ ”میں نفرت کے بازار میں محبت کی دوکان کھولنے نکلا ہوں“ تو وہ عبد الباری صدیقی کے فکر وخیال کی تائید ہی تو کر رہے ہیں، عبد الباری صدیقی محسوس کرتے ہیں کہ نفرت کی سودا گری اس ملک میں بڑھتی جا رہی ہے اور شاید ملک پر انی روش پر لوٹ نہیں پائے گا، اس لیے اپنے بچوں کو محفوظ مستقبل کے لیے ایک مشورہ دے ڈالتے ہیں جس کا انہیں پورا حق ہے، یہ صحیح بھی ہے کہ ایسا مشورہ انہیں نہیں دینا چاہیے تھا اور دیا تھا تو بر ملا اعلان نہیں کرنا چاہئے تھا، یقینا انہوں نے حق بات کہی، جیسا محسوس کیا ؛لیکن ساری حق بات کہہ دی جائے اس کا مکلف کوئی نہیں ہے، یقینا جب بولیں، حق بولیں، لیکن سارے حقائق بیان کر دینے کے ہم پابند نہیں ہیں، شاید اسی وجہ سے ہر بڑے عہدے میں رازداری کا حلف دلایا جاتا ہے اور چھوٹے دفاتر میں کارندوں سے راز مخفی رکھنے کی توقع کی جاتی ہے ۔
جناب عبد الباری صدیقی نے جو کچھ کہا ، اور جو کچھ ان کی زبان سے نکلا وہ ان کا کربِ آگہی ہے جو جملوں کی شکل میں ڈھل گیا اور بر سر عام نکل پڑا، در اصل با خبری انسان کو ہر معاملہ میں حساس بنا دیتی ہے، گھر میں بڑا سے بڑا حادثہ ہوجائے، بچے کھیلتے رہتے ہیں، پاس پڑوس بے خبر ہے تو اس پر بھی کوئی اثر نہیں ہوتا؛ لیکن خاندان کے ایسے افراد جو موت کے بعد کی جدائی اور حالات کی سنگینی سے با خبر ہوتے ہیں، ان کا دل روتا ہے، آنکھوں سے اشک بہتے ہیں اور ذہن ودماغ پر غم کی آندھیوں کا بسیرا ہوجاتا ہے، با خبری کے اچھے اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں، خوشی کی خبر پر ہر موئے تن سے مسرت کی لہر چلتی ہے اور طربیہ لمحات کے کیف وسرور میں آدمی ڈوب جاتا ہے، اس مثبت اثرات کو اللہ تعالیٰ نے بیان کیا اور فرمایا : اللہ کے بندوں میں علم والے ہی اللہ سے ڈرتے ہیں ، اللہ کی عظمت وجلال کا علم جس قدر بندوں کو ہوتا ہے ، اللہ کا خوف ، خشیت اسی قدر بندوں پر غالب ہوتا ہے، جو اللہ کی کبریائی اور قدرت سے نا واقف ہے اس پر یہ کیفیت طاری نہیں ہوتی ۔
جناب عبد الباری صدیقی ہندوستان کے موجودہ حالات سے اچھی طرح واقف ہیں، اس لیے اس کے مضر اثرات نے انہیں کرب میں مبتلا کر رکھا ہے ، اور کرب کا بیانیہ جچے تلے جملے اور الفاظ میں نہیں ہوا کرتا وہ تو کبھی آہ کی شکل میں بھی نکل جاتا ہے، عبد الباری صدیقی کے حالیہ بیان کو اسی پس منظر میں دیکھا جا نا چاہیے۔