محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دین حق کی شرط اول ہے-
ارشاد باری ہے: آپ کہہ دیجئے: اگر تمہاارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارا کنبہ اور وہ مال جو تم نے کمائے ہیں اور وہ تجارت جس میں نکاسی نہ ہونے کا تم کو اندیشہ ہو اور وہ گھر جن کو تم پسند کرتے ہو- تم کو اللہ سے اور اس کے رسول سے اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ پیارے ہوں تو تم منتظر رہو، یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم بھیج دیں اور اللہ تعالیٰ بے حکمی کرنے والوں کو ان کے مقصود تک نہیں پہونچاتا۔ (سورہ توبہ : آیت ۴۲ رکوع ۳)
یہ آیت ہجرت کے پس منظر میں ہے، لیکن یہ حکم اسی کے ساتھ خاص نہیں ہے، بلکہ ہر دور کے لیے ہے- اس آیت میں اللہ اور رسول کی محبت کو تمام چیزوں کی محبت سے بر تر و بالا رکھنے کی بات کہی گئی ہے اور ایسا نہ کرنے پر سزا کا اعلان بھی کیا گیا ہے- اس لیے ایمانی و اسلامی زندگی بغیر اللہ رسول کی محبت کے ممکن ہی نہیں ہے- اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے کوئی بھی اس وقت تک مومن کامل نہیں ہو سکتا، جب تک میں اس کے نزدیک اس کے والد، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ بن جاوں-
ایک موقع سے حضرت عمر ؓ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! سب کی محبت مغلوب ہو چکی ہے- صرف اپنی ذات سے تعلق زیادہ معلوم ہوتا ہے- آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ابھی نہیں عمر، تھوڑی دیر بعد حضرت عمر ؓ نے فرمایا : اب اپنی ذات سے بھی زیادہ آپ سے محبت معلوم ہوتی ہے- ارشاد ہوا، ہاں اب، یعنی اب ایمان مکمل ہو گیا-
اسی محبت کا تقاضہ تھا کہ حضرت خبیب رضی اللہ عنہ نے اعلان کیا کہ مجھے یہ بھی پسند نہیں کہ میں پھانسی کے پھندے سے اتار دیا جاؤں اور آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے پائے مبارک میں کانٹے چُبھیں-
اس قدر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کیوں کرنی چاہیے؟
کمال ایسا کہ 32 سال کی مختصر مدت میں کایا پلٹ کر دی- ایک خدائے واحد کی پرستش کا غلغلہ بند ہوا- جہالت دور ہوئی- علم کی روشنی پھیلی- ظلم وستم کا خاتمہ ہوا- کراہتی ہوئی انسانیت نے سکون و آرام پایا- انصاف کی حکمرانی قائم ہوئی- احسان ایسا کہ انسان تو کیا چرند و پرند بھی آپ کی رحمت سے بہرہ ور ہوئے- دشمنوں کی جان بخشی کی گئی اور دوستوں پر شفقت و محبت کی ایسی بارش ہوئی کہ سب گرویدہ ہو گئے اور قرب ایسی کہ قربت خداوندی کا حصول آپ کے قرب کے بغیرممکن نہیں-
اس لیے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی سے محبت فطری ہے- اس کے لیے کسی دلیل اور حجت کی ضرورت نہیں ہے۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے
حسن یوسف، دم عیسیٰ ید بیضا داری آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ تین چیزیں جس شخص میں ہوں، اس نے ایمان کی حلاوت پالی- ایک وہ شخص جس کو اللہ کے رسول سب سے زیادہ محبوب ہوں، دوسرے وہ شخص جو محبت صرف اللہ کے لیے کرے اور تیسرا وہ جسے اللہ نے کفر سے بچالیا اور وہ کفر کی طرف لوٹنے سے اس قدر نفرت کرے جیسی آگ سے کرتا ہو۔
ایک دوسری آیت میں اللہ سے محبت کا تقاضہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو قرار دیا گیا- اطاعت رسول پر مغفرت خدا وندی کا مزدہ سنایا گیا، گویا اللہ کی خوشنودی کا حصول اتباع رسول کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین آپ کی مرضیات پر چلتے اور آپ کے چشم و ابرو کے اشارے پر قربان ہونے کو تیار رہتے تھے-
ایک بار حضرت ابو مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسجد کے دروازے تک پہونچے تھے کہ آپ کے اعلان کی آواز کانوں میں پڑی کہ بیٹھ جا وہیں بیٹھ گیے اور کہنے لگے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے بعد اس کی گنجائش ہی کہاں تھی کہ ایک قدم آگے بڑھایا جائے-
ایک صحابی نے اپنا قُبّہ صرف اس بات پر توڑ دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرما یا تھا کہ یہ کس کا قبہ ہے؟ صحابی نے محسوس کیا کہ آپ نے اس کو پسند نہیں کیا، تبھی تو آپ نے فرمایا کہ اس طرح کا مال اس کے مالک کے لئے قیامت میں وبال جان ہوگا-
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک بار کسم سے رنگا ہوا گلابی گیروا رنگ کا کپڑا پہنے ہوئے تھے- آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھ لیا-
یہ کیا ہے؟
یہ سن کر اس کپڑے کو چولھے میں ڈال کر جلا ڈالا- دوسرے دن آنے پر دریافت کیا کہ اس کپڑے کو کیا کیا؟ حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جلا ڈالا-
ارشاد ہوا کسی عورت کو کیوں نہیں دے دیا؟
ان کے لئے اس طرح کا لباس پہننے میں کوئی حرج نہیں ہے- اتنا ہی نہیں، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جاں نثاری کے اعلیٰ درجہ پر فائز تھے- نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کے مقابل اپنی جان کی پرواہ نہیں کرتے تھے، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آنے والے تیر و تفنگ کا رخ بھی اپنی طرف کر لیتے تھے تاکہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا بال بھی بیکا نہ ہو-
غزوۂ اُحد کے موقع سے حضرت ابو طلحہؓ آپ کی طرف آنے والے ستر سے زائد تیروں کو اپنے ہاتھ اور سینے پر روکا، جس کے سبب ان کا ہاتھ ہمیشہ کے لیے شل ہو کر رہ گیا تھا- اسی موقع سے حضرت ابو طلحہؓ کا یہ قول بھی کتب احادیث میں مذکور ہے کہ میرا سینہ آپ کے لیے موجود ہے- اسی غزوۂ حضرت ابو دجانہؓ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا- وہ ڈھال بن گیے اور تیر ان کی پیٹھ میں پیوست ہوتے رہے- وہ حرکت بھی نہیں کرتے تھے کہ کہیں میری حرکت کی وجہ سے کوئی تیر آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم اطہر تک پہونچ نہ جائے-
دشمنوں نے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی خبر پھیلائی تو ایک صحابیہ بے اختیار مدینہ سے چل کر اُحد پہونچیں- راستہ میں انہیں بتایا گیا کہ تمہارا باپ شہید ہو گیا- وہ آگے بڑھتی جاتی تھیں اور کہتی جاتی تھیں کہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کیسے ہیں؟ پھر بتایا گیا کہ بھائی، بیٹا اور شوہر بھی اس لڑائی میں کام آگیے؛ لیکن ہر بار وہ یہی پوچھتی تھیں کہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کیسے ہیں؟
انہیں بتایا گیا کہ آپ خیریت سے ہیں، کہتی ہیں مجھے ان کی زیارت کراؤ اور جب رخ انور کی زیارت ہو گئی تو کہنے لگی- میرا سب کچھ آپ پر قربان، باپ، بھائی، بیٹا، شوہر سبھی قربان- آپ سلامت ہیں تو ساری مصیبتیں قابل برداشت ہیں۔
یہ اور اس قسم کے واقعات بتاتے ہیں کہ صحابہ کرام کے نزدیک محبت رسول کا مطلب اللہ کے رسول کی مرضیات پر چلنا تھا- اس لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا تقاضہ یہ ہے کہ آپ کی ایک ایک ادا کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیا جائے اور ہمارے ہر کام اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ اور ان کی ہدایات کے مطابق ہوں-
مجازی محبت میں بھی آدمی محبوب کی ایک ایک ادا پر مر مٹتا ہے- یہ تو حقیقی محبت کا معاملہ ہے- اس میں کمی، کوتاہی کسی صورت گوارہ نہیں- مسلمانوں کے اندر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت مثالی ہے اور ہم سب اس کے لیے مر مٹنے کو ہمہ وقت تیار رہتے ہیں-
ناموس رسالت پر کسی قسم کا حملہ اور کسی قسم کی توہین ہمیں بر داشت نہیں- جان، مال، آل و اولاد، باپ ماں، سب آپ پر قربان، اتنی محبت ہونے کے باوجود ہم اپنا رنگ ڈھنگ سنت کے مطابق نہیں بنا پا رہے ہیں-
زندگی سنت کے مطابق نہیں گذر رہی ہے- سماجی، معاشی، معاشرتی زندگی میں عموما سنتوں کا چلن نہیں ہے- ان تمام معاملات میں ہم من مانی کر رہے ہیں- بھول جاتے ہیں کہ ہمارے اعمال سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو با خبر کرایا جاتا ہے- محبت رسول کے دعویٰ کے باوجود سنت رسول سے اس قدر دوری قابل غور ہے اور اس صورت حال میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔
عملی زندگی میں سنت سے دوری کی کسر ہم اظہار محبت کے نت نئے طریقے ایجاد کرکے پورے کر رہے ہیں- حالاں کہ اظہار محبت کا بھی وہی طریقہ معتبر ہے، جو محبوب کو پسند ہو- محبوب جلسہ، جلوس، مظاہرے کو پسند نہ کرتا ہو اور ہم ا ن چیزوں کے ذریعہ محبت کا اظہار کریں، تو محبوب کی خوش نودی کس طرح حاصل ہو سکتی ہے؟ بلکہ جو طریقے انہیں پسند نہیں، اس کو اپنا کر ہم کچھ ان کے عتاب کے ہی شکار ہوں گے- رضا کے نہیں- اس حقیقت کو ہم سب کو جان اور سمجھ لینا چاہیے۔ واقعہ یہ ہے کہ ہمیں جشنِ آمدِ نبی تو یاد رہ گیا ہے-
مِشن آمدِ نبی سے ہم سب غافل ہیں۔
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ (9431003131)