یکساں سول کوڈ کا شوشہ اردو میڈیم | Uniform Civil Code in Urdu Medium
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
1972ء سے یونی فارم سول کوڈ یعنی یکساں شہری قانون بنانے کی کوشش ہوتی رہی ہے- کانگریس اس قسم کی کوشش نرم ہندتوا مزاج کے ساتھ کرتی رہی- متبنی اور نفقہء مطلقہ بل کے نام پر مسلم پرسنل لا پر شب خوں مارنے کی یہ کوشش آج کی نہیں ہے- کانگریس کا زوال ہوا- بی جے پی بر سر اقتدار آئی، تو اس نے کھلے عام اس کو کرنا شروع کیا- تین طلاق جیسے حساس اور نازک مسئلہ پر اس نے قانون سازی کی اور عدالت کے ذریعہ اس کے نفاذ کی متواتر کوشش نے تین طلاق کے باوجود مطلقہ کے بیوی بر قرار رہنے اور نان و نفقہ کی ادائیگی کو لازم قرار دیا- ایک طرف تین طلاق کو جرم قرار دے کر شوہر کو جیل کی سلاخوں میں بھیجنے کا انتظام کیا اور دوسری طرف اسے نفقہ دینے پر مجبور کیا گیا- اب کون پوچھے کہ جب شوہر جیل میں ہوگا، کام نہیں کرے گا تو نفقہ کہاں سے لا کر دے گا- جیل میں جو کام کی اجرت دی جاتی ہے، وہ متعینہ یومیہ مزدوری سے اس قدر کم ہے کہ اس سے ماہانہ مقرر کردہ نفقہ کی ادائیگی ہو ہی نہیں سکتی-
امیروں کے یہاں تو یہ ممکن ہے، لیکن ایسے لوگ جو روز کماتے اور روز کھاتے ہیں، اس کے متحمل کس طرح ہو سکتے ہیں، حالاں کہ طلاق کا تناسب کمزور طبقوں میں ہی زیادہ ہوتا ہے۔
ابھی حال ہی میں شاعر اور مکالمہ نگار جاوید اختر نے بھی یہ کہہ کر سب کو چونکا دیا تھا کہ اگر شوہر کو چار بیوی کی اجازت ہے تو بیوی کو چار شوہر رکھنے کی اجازت کیوں نہیں دی جاسکتی- جاوید اختر مذہب بیزار ہیں- خدا اور رسول کے احکام سے ان کا کچھ لینا دینا نہیں ہے- یہ تو سب جانتے ہیں، لیکن انسانی نفسیات و طبعیات کے خلاف بھی وہ بیان بازی کریں گے، اس کی توقع کسی کو نہیں تھی کیوں کہ ان کا شمار دانشوروں میں ہوتا ہے- ایک دانشور سے ایسی بے ہودہ بکواس کی توقع کم سے کم دنیا نہیں کرتی- وہ یہ بیان دیتے وقت شاید بھول گیے کہ عورت نفسیاتی طور پر چار مرد کی متحمل نہیں ہو سکتی اور اگر ہو بھی جائے تو بچوں کا نسب کس سے ثابت ہوگا- کیا چاروں کو اس کا باپ مان لیا جائے گا- اور کیا ڈی این اے ٹسٹ کے ذریعہ کسی ایک باپ کو نامزد کر دینا، جھگڑے کی بنیاد نہیں ڈالے گا- اسی طرح تعلق کے اوقات بھی نزع کا سبب بنیں گے اور عورت کی حیثیت بازیچہء اطفال سے زیادہ باقی نہیں رہے گی- یہ اس کے ساتھ ظلم ہوگا- اس لیے شریعت نے عورتوں کو چار شادی کی اجازت نہیں دی۔
بی جے پی نے اس قسم کے واقعات، بیانات اور مسائل کے ذریعہ یکساں سول کوڈ کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا کام کیا اور اب جب کہ پارلیامنٹ اور راجستھان اسمبلی کا الیکشن قریب ہے، ہندتوا کو متحد کرنے کے لیے یکساں سول کوڈ کا شوشہ چھوڑا اور راجستھان کے بی جے پی ایم پی کڑوڑی لال مینا کے ذریعہ 9 دسمبر 2022ء کو راجیہ سبھا میں پرائیوٹ یکساں سول کوڈ بل پیش کروا دیا- حزب مخالف نے برائے نام مخالفت کی اور تئیس (23) ووٹ کے مقابل ترسٹھ (63) ووٹ سے اس بل پر بحث کی منظوری دے دی گئی- برائے نام مخالفت کا مطلب یہ ہے کہ حزب مخالف میں آل انڈیا ترنمول کانگریس، بیجو جنتا دل، وائی ایس آر سی پی کے ارکان خاموشی سے ایوان سے باہر چلے گیے- ایوان سے باہر چلے جانے کا یہ عمل در اصل بالواسطہ حمایت کے قبیل سے ہے- یہ حضرات اگر ووٹنگ میں یونیفارم سول کوڈ کے خلاف ووٹ دیتے تو یہ بل راجیہ سبھا میں پیشی کے لیے منظور نہیں ہوپاتا، کیوں کہ راجیہ سبھا میں این ڈی اے کے ایک سو دس (110) اور حزب اختلاف کے ایک سو انتیس (129) ارکان ہیں- اس لیے مان لینا چاہیے کہ اس بل کی مخالفت کانگریس کی قیادت میں قائم یو پی اے میں شامل چونسٹھ (64) ارکان نے بھی نہیں کیا، ورنہ مخالفین کی تعداد کم از کم چونسٹھ (64) ضرور ہوتی اور ایوان میں ترسٹھ سے ایک ووٹ زائد ہونے کی وجہ سے اسے منظور نہیں کیا جاتا، جب یوپی اے اپنے ووٹ کو متحد نہیں رکھ سکی تو دیگر پارٹیوں کے پاس جو چوسٹھ (64) ارکان ہیں، ان کا رونا کیا رویا جائے- اس معاملہ کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اب تک جسٹس بی اس چوہان کی سر براہی میں قائم لا کمیشن کی رپورٹ بھی پارلیامنٹ میں پیش نہیں کی جا سکی ہے، جو با خبر ذرائع کے مطابق ایک سو پچاسی (185) صفحات پر مشتمل ہے اور جس میں کہا گیا ہے کہ یونی فارم سول کوڈ اس ملک میں نہ تو مطلوب ہے اور نہ ہی ضروری-
لا کمیشن نے یہ رپورٹ سرکار کو 13 اگست 2018ء کو پیش کیا تھا- اسے اب تک پارلیامنٹ میں پیش نہیں کیا جا سکا اور اس رپورٹ کے خلاف یکساں سول کوڈ کا نیا شوشہ چھوڑ دیا گیا۔
- ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ ماضی میں پرائیوٹ بل کا کیا حشر ہوتا رہا ہے- 1952ء سے اب تک کوئی پانچ ہزار چار سو (5400) نجی بل پارلیامنٹ میں پیش کیے گیے، جن میں سے صرف چودہ بل قانون میں تبدیل ہو پائے- گذشتہ بیس سالوں کی بات کریں تو اکیس سو (2100) نجی بل پیش ہوئے اور بیش تر یا تو رد ہو گیے یا پیش کرنے والے نے اسے واپس لے لیا، جو بل قانون بن پائے اسے واپسی کے بعد حکومت نے اپنی جانب سے دو بارہ ایوان میں رکھا- ممکن ہے بعد میں اس بل کے ساتھ بھی ایسا ہی ہو، فی الوقت مسلمانوں کو اس کو عوامی سطح پر موضوع بحث بنا کر سڑکوں پر اترنے سے گریز کرنا چاہیے؛ البتہ ان تمام طبقات کے ساتھ گفت و شنید اور مشورے کرنے چاہیے جن کے پرسنل لا پر اس قانون کے مضر اثرات پڑیں گے اور وہ فنا ہو کر رہ جائے گا- یہ طبقات صرف اقلیتیں نہیں ہیں- بڑی تعداد ان غیر مسلم بھائیوں کی بھی ہے جو سماجی اور مذہبی امور کی انجام دہی میں منو سمرتی نہیں، اپنے پرسنل لا اور قبائلی رسم و رواج کے مطابق زندگی گذارتے ہیں۔ ان تمام سیاسی پارٹیوں کو اس کام کے لیے تیار کرنا چاہیے کہ وہ بحث میں یکساں سول کوڈ کے منفی پہلوؤں کو ایوان میں اجا گر کریں، تاکہ یہ بل اپنی موت آپ مرجائے یا کڑوڑی لال مینا اسے واپس لے لے ۔
ضرورت ہے کہ مخالف ماحول میں سازگار فضا بنائی جائے اور ہر حال میں اس بل کو پاس ہونے سے روکا جائے، کس طرح؟ یہ سوچنا اور لائحہ عمل تیار کرنا قائدین کی ذمہ داری ہے۔