ججوں کی تقرری کا طریقۂ کار | ججوں کی تقرری پر مضمون
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
ہندوستانی عدلیہ کو مرکزی حکومت سے آزاد رکھنے کے لیے ججوں کی تقرری کا یہاں الگ نظام ہے، جسے کالجیم کہتے ہیں- کالجیم کے ارکان طے کرتے ہیں کہ کس کی ترقی ہونی ہے اور کون جج یا چیف جسٹس بنے گا- تقرری کے اس کالجیم سسٹم کی وجہ سے مرکز اور سپریم کورٹ کے درمیان تنازعہ بڑھتا جا رہا ہے۔
وزیر قانون کرن رجیجو کا کہنا ہے کہ یہ بحالیاں مرکزی حکومت کے دائرہ اختیار میں ہونی چاہیے- اس کی وجہ سے معاملہ گرما گیا ہے- سپریم کورٹ نے ابھی حال ہی میں کالجیم کی سفارش کے باوجود ججوں کی تقرری میں غیر معمولی تاخیر پر حکومت کو پھٹکار لگائی تھی- اس پر وزیر قانون کو غصہ آ گیا اور انہوں نے کہا کہ کالجیم کو یہ کہنے کا حق نہیں ہے کہ حکومت اس کے ذریعہ بھیجے گیے ہر نام کو منظور کر لے- اگر دستور کی روح یہی ہے تو سپریم کورٹ کو خود سے تقرری کر لینی چاہیے- اس کے ساتھ ہی وزیر قانون نے سپریم کالجیم کے ذریعہ ہائی کورٹ میں تقرری کے لیے پیش فائلوں کو کالجیم کو نظر ثانی کے لیے واپس کر دیا ہے اور ممبئی ہائی کورٹ میں ججوں کی تقرری کے لیے بھیجے گیے ناموں میں سے صرف دو سینئر وکلاء سنتوش گووند راؤ اور منوہر ساٹھے کی تقرری کی منظوری دی ہے۔
جن فائلوں کو حکومت نے کالجیم کو واپس کیا ہے- ان میں سوربھ کرپال کی تقرری کی فائیل بھی شامل ہے- سوربھ کرپال ہم جنس پرست ہے اور وہ ایل جی بی ٹی کیو کی حمایت میں بیان دیتے رہے ہیں- انہوں نے سیکس اینڈ دی سپریم کورٹ نامی کتاب بھی لکھی ہے-وہ ہندوستان کے سابق چیف جسٹس بی این کرپال کے بیٹے ہیں- ان کی سفارش اس وقت کے چیف جسٹس این وی رمن نے کی تھی- ترقی کی یہ سفارش 11 نومبر 2021ء کو لی گئی تھی- اس کے قبل 2018ء سے اب تک ان کا نام بار-بار بھیجا جا تا رہا ہے- لیکن ان کی ترقی کی منظوری نہ ملنے میں ان کی جنسی بے راہ روی اور ان کے خیالات کا بھی بڑا عمل دخل رہا ہے-اگر ان کو دہلی ہائی کورٹ کا جج بنا دیا گیا تو وہ پہلے ہم جنس پرست جج ہوں گے- ظاہر ہے ہندوستانی دستور کے اعتبار سے یہ ایک غلط کام ہے اور ہندوستانی تہذیب و ثقافت، انسانی اقدار کے بھی خلاف ہے۔ اس لیے حکومت نے ان کی تقرری کو روک رکھا ہے جو لائق ستائش ہے۔
لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ایک غلط سفارش کی بنیاد پر ساری فائلوں کو واپس کر دیا جائے- حکومت کو سمجھنا چاہیے کہ ججوں کی کمی کی وجہ سے ہی پورے ہندوستان کی عدالت میں لاکھوں مقدمات زیر التوا ہیں اور ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ انصاف میں تاخیر بھی ظلم کے مترادف ہے۔