سید شاہ نورالدین احمد فردوسی ندوی کی حالات زندگی و خدمات
خانقاہ منیر شریف کے ستائیسویں سجادہ نشیں، سمپورن وکاس دل کے سابق نائب صدر، ماہنامہ اشارہ پٹنہ کے سابق مدیر، ہفتہ وار اخبار ہم دم پٹنہ کے بانی و مدیر اعلیٰ، حضرت سید شاہ نور الدین احمد فردوسی منیری عرف پیارے صاحب کا 29 شعبان 1431ھ مطابق 10 اگست 2010ء روز اتوار خانقاہ منیر شریف میں انتقال ہوگیا، پس ماندگان میں اہلیہ، دو لڑکے سید شاہ طارق عنایت اللہ، سید شاہ ایمن اور چھ لڑکیاں اور دو نامور بھائی علوم عربیہ و دینیہ کے ممتاز عالم مولانا تقی الدین ندوی فردوسی دامت برکاتہم اور علی احمد فردوسی کو چھوڑا- تدفین چھوٹی درگاہ منیر شریف میں مقبرہ سے جانب جنوب بڑے چبوترے پر والدہ ماجدہ کے بغل میں ہوئی۔
حالات زندگی و تعلیم و تربیت
حضرت سید شاہ نور الدین احمد فردوسی بن سید شاہ عنایت اللہ فردوسی (م 1 دسمبر 1991ء) بن سید شاہ فضل حسین منیری (م 1924ء) بن سید شاہ امجد حسین (م 1921ء) حسنی ہاشمی منیری کی ولادت 18/شعبان 1351ھ مطابق 17/دسمبر1932 میں پٹنہ سیٹی کے صدر گلی میں ہوئی، مکتب کی تعلیم خانقاہی روایت کے مطابق اپنے بزرگو ں سے حاصل کی، عربی و فارسی کی تعلیم اپنے چچا حضرت شاہ مراد اللہ فردوسی منیریؒ سے پائی، پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے مدرسہ عالیہ کلکتہ میں داخلہ لیا اور مروجہ علوم و فنون میں درک پیدا کیا- دینی تعلیم کے بعد عصری علوم کی طرف متوجہ ہوئے- منیر ہائی اسکول سے میٹرک کرنے کے بعد بی این کالج پٹنہ سے انٹر اور بی اے کیا- علی گڑھ یونیورسیٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی اور پٹنہ ہائی کورٹ میں وکالت کرنے لگے- اجازت و خلافت والد ماجد سے حاصل تھی- ان کے وصال کے بعد خانقاہ کے سجادہ نشیں مقرر ہوئے اور بیعت و ارشاد کا سلسلہ شروع کیا، آپ خانقاہ منیر کے چودہ سلاسل اور سلسلہ تاج فقیہی میں اپنے مریدوں سے بیعت لیتے تھے اور ان سلاسل کی تعلیم اور اوراد و وظائف کی تلقین کیا کرتے تھے۔
نور الدین فردوسی کی سیاسی خدمات
تصوف کا مطلب حضرت کے یہاں رہبانیت اور علائق دنیا سے دوری نہیں تھی، اس لئے منیر شریف خانقاہ کی وقف زمینوں کی حفاظت کے لئے آپ کی آمد و رفت عدالت میں بھی تھی اور سیاست سے بھی شغف تھا- چنانچہ جب رنجن پر ساد یادو نے اپنی پارٹی سمپورن وکاس دل بنایا تو آپ اس کے نائب صدر منتخب ہوئے- بہار کی قد آور سیاسی شخصیت جے پرکاش ناراین اور مہامایا بابو وغیرہ آپ کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔
سیاست کے ساتھ صحافت سے بھی آپ کی اچھی خاصی دلچسپی تھی- زمانہ دراز تک ماہنامہ اشارہ پٹنہ کے ایڈیٹر رہے- بعد میں اپنا ہفتہ وار اخبار ہم دم نکالنا شروع کیا، جس نے ملک و ملت کے مختلف سلگتے ہوئے مسائل میں عمدہ رہنمائی کی- آپ شاعری بھی کیا کرتے تھے- کبھی کبھی جب طبیعت موزوں ہوتی تو کچھ اشعار کہہ لیا کرتے تھے، جو سب کے سب محفوظ نہیں رہے- کچھ اشعار موجودہ سجادہ نشیں اور ان کے صاحب زادے طارق عنایت اللہ فردوسی نے تذکرہ مخدومان منیر میں جمع کردیا ہے- ان کے احوال بھی بڑی حد تک اسی کتاب سے ماخوذ ہیں۔
آپ کی شادی حافظ سید شاہ منظور احمد کی صاحب زادی سے ہوئی تھی، جو الحمد للہ ابھی بقید حیات ہیں، حضرت سید شاہ نور الدین فردوسی سے میری ملاقات قدیم تھی- الحاج محمد سلیم مرحوم ہوٹل ڈیزی، دریا پور، سبزی باغ، پٹنہ ان کے معتقدوں میں تھے- ان کا آنا جانا وہاں لگا رہتا تھا- ان کے ساتھ میری پہلی بار خانقاہ میں حاضری ہوئی تھی- حضرت نے خود ہی تمام مقامات دکھائے اور ان کی تاریخی حیثیت بتائی تھی- پھر اس کے بعد کئی بار میرا خانقاہ جانا ہوا- جب میری کتاب ”تذکرہ مسلم مشاہیر ویشالی“ چھپ کر آئی اور ان کی خدمت میں پیش کیا تو بہت خوش ہوئے-
فرمایا کہ آپ مولویوں کی تواضع بھی عجیب ہوتی ہے- ویشالی کی اس تاریخ کو تذکرہ کا نام دے کر اس کے علمی مقام کو آپ نے کم کر دیا ہے- کتاب کا نام تاج فقیہی سلسلہ کے ایک شخص کے نام تھا- اس کو دیکھ کر مسرت کا اظہار کیا اور دیر تک حضرت تاج فقیہؒ کے احوال و آثار پر گفتگو کرتے رہے- یہ میں اس دور کی بات کر رہا ہوں جب ساری عمارتیں خانقاہ کی فقیرانہ انداز کی اور مٹی کی تھیں- اب بھی خلوت اور سجادہ نشیں کی نششت اپنی قدیم حالت پر ہے- بقیہ عمارتوں میں بڑی تبدیلی آئی ہے- اب ان عمارتوں کو دیکھ کر فقیر کی کٹیا نہیں، شاہانہ قصر کا احساس ہوتا ہے، جن خانقاہوں میں پیری مریدی کے ساتھ تعلیم، تدریس اور تحقیق کا کام ہوتا ہے- خانقاہ منیر شریف ان میں سے ایک ہے- سید شاہ نور الدین احمد فردوسی اپنے بھائیوں میں سب سے بڑے تھے- اس خانوادہ کے چشم و چراغ اور علمی دنیا کے آفتاب و ماہتاب- حضرت مولانا تقی الدین ندوی فردوسی دامت برکاتہم مجھ سے غیر معمولی محبت کرتے ہیں- انہوں نے میری کتاب ”نئے مسائل کے شرعی احکام“ جس کا عربی ترجمہ ”المسائل المستجدۃ فی ضوء الاحکام الشرعیۃ“ کے نام سے مطبوعہ ہے- اس پیرانہ سالی میں نظر نہائی ڈال کر احقر پر احسان کیا- عربی میں اس پر قیمتی مقدمہ لکھا- آج بھی ان کے الطاف و عنایات کا سلسلہ جاری ہے- ان کے ایک دوسرے بھائی علی احمد فردوسی ہیں، جنہوں نے ہمدرد یونیورسٹی دہلی سے سبکدوش ہوکر پٹنہ میں ہی بود و باش اختیار کرلیا ہے- وفاق المدارس سے چند ملحق مدارس کی اسناد کو منظور کرانے میں وہ بڑے معاون ثابت ہوئے۔
سید شاہ نور الدین احمد فردوسی رح کے والد سید شاہ عنایت اللہ فردوسیؒ نے امیر شریعت سابع حضرت مولانا محمد ولی رحمانیؒ کا نکاح پڑھایا تھا، اس طرح دیکھیں تو کئی پشتوں سے اس خانوادہ کا تعلق امارت شرعیہ اور اکابر امارت شرعیہ سے انتہائی مضبوط اور مستحکم رہا ہے- اس تعلق کی وجہ سے حضرت شاہ صاحب کے جنازہ میں بڑی بھیڑ تھی- احقر بھی گردارہ کے طور پر شریک جنازہ ہوا تھا- اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ حضرت شاہ صاحب کے درجات بلند کرے اور خانقاہ کے فیض کو ہمیشہ جاری رکھے، ہمارے مخلص بزرگ حضرت مولانا تقی الدین ندوی فردوسی کو صحت و عافیت کے ساتھ درازی عمر عطا فرمائے۔ آمین
مفتی محمد ثنا ء الہدی قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ