مظہر وسطوی کا شعری مجموعہ پئے تفہیم کا تنقیدی و تجزیاتی مطالعہ
مضمون نگار : محمد ضیاء العظیم قاسمی ڈائریکٹر مدرسہ ضیاءالعلوم پھلواری شریف پٹنہ ،برانچ اونر ضیائے حق فاؤنڈیشن (رجسٹرڈ) پٹنہ
موبائل نمبر : 7909098319
تمام تعریفیں اس رب کے لیے ہیں جس نے انسانوں کو قوت گویائی عطا کی، جس سے انسان اپنے احساسات و جذبات کا اظہار کرتا ہے ۔اور یہ اظہار کبھی نثر میں کرتا اور کبھی نظم میں ۔نظم کے ذریعہ جو اظہار خیال کرتا ہے وہ شاعر کہلاتا ہے- شاعر کو قدرت کی جانب وہ نعمتیں عطا کی گئی ہیں جن سے وہ اپنے احساسات و جذبات کو ایک نیا رنگ وآہنگ دے کر اسے خوبصورت پیرائے میں ڈھال کر دلچسپ بنا دیتا ہے۔ اسے وہ تخیلاتی وتصواراتی پرواز حاصل ہے جو اسے ممتاز بنا دیتا ہے، ایک شاعر جب شاعری کی زبان میں اپنی گفتگو کرتا ہے تو وہ بیک وقت ماضی حال اور مستقبل تینوں پر گفتگو کرجاتا ہے۔
کیوں کہ شاعری نام ہے ذہن و قلب، دل و دماغ میں اٹھتے تجربات مشاہدات اور اپنے ان احساسات و جذبات کو خوبصورت اور پر لطیف انداز میں پرونے کا جو بظاہر خود کے معلوم ہوتے ہیں، لیکن حقیقت میں وہ دنیا میں موجود خلق خدا کی ترجمانی ہوتی ہے جو ان مسائل و مصائب سے دو چار ہیں، یا آسائش سے آسودہ ہیں۔ شاعر کو وہ بصارت و بصیرت، تصورات و تخیلات ،تجربات و مشاہدات عطا کیا گیا ہے- جن سے وہ ان کیفیات کا مشاہدات کرتا ہے جو عام انسانوں کے اختیارات میں نہیں ہیں ، انہیں وجوہات کی بنا پر شاعر کو دور اندیش، صاحب بصیرت و بصارت، حکیم و فلسفیانہ ذہنیت کا مالک تصور کیا جاتا ہے۔
مظہر وسطوی ؔکا نام اردو دنیا کے لئے کسی تعارف کا محتاج نہیں، وہ ریاست بہار کے ضلع ویشالی سے تعلق رکھتے ہیں جن کی پہلی تصنیف "پئے تفہیم" (شعری مجموعہ) شائع ہو کر مقبولیت حاصل کر چکی ہے۔ ان کا شمار ویشالی کے ممتاز شاعروں میں اور عمومی طور پر صوبہ بہار کے معیاری شاعروں میں ہوتا ہے- آپ علمی و ادبی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ کو دبستان عظیم آباد کے بہت مشہور و معروف اور بزرگ شاعر محترم قوس صدیقی کے شاگردی کا شرف حاصل ہے۔ آپ نے اپنی شعری تصنیف کے ذریعہ اپنا ایک الگ مقام پیدا کیا ہے- آپ درس و تدریس کے پیشے سے وابستہ ہیں- آپ کو ادبی خدمات پر انعامات و اعزازات بھی مل چکے ہیں۔ خصوصاً ہندی ساہتیہ سمیلن کی جانب سے پروفیسر ثوبان فاروقی ایوارڈ 2018 ۔
ہمارے سامنے آپ کی تصنیف کردہ شعری مجموعہ "پئے تفہیم" کی سنہری تحریریں روح میں اتر کر تازگی کے ساتھ دل و دماغ کو معطر کر رہی ہیں۔
پئے تفہیم (شعری مجموعہ) 92/صفحات پر مشتمل یہ شعری مجموعہ جسے اردو ڈائریکٹوریٹ، محکمہ کابینہ سکریٹریٹ، پٹنہ کے مالی تعاون سے شائع کیا گیا ہے۔
اس میں ایک حمد، دو نعتیہ کلام ، پینسٹھ (۶۵) غزلیں اور سات نظمیں شامل ہیں- کتاب کا انتساب ’’نئی تشکیلات کے نمائندہ استاذ الشعراء محترم قوس صدیقی کے نام‘‘ ہے- کتاب کی شروعات حرفِ ابتدا میں مصنف شاعر نے وجہ تصنیف و تالیف کے ساتھ ساتھ شعر و ادب سے وابستگی، شعر و ادب کے تئیں احساسات و جذبات کے اظہار ان الفاظ میں کیا کہ میں شاعری روح کی تسکین اور طمانیت قلب کے لئے کرتا ہوں- شاعری میری نگاہ میں تجارت و زراعت نہیں بلکہ عبادت کا درجہ رکھتی ہے۔ ہم اس سے ان کے جذبات و احسات کی بلندی اور عظمت کا اندازہ لگا سکتے ہیں-
کے ساتھ ساتھ اپنے معاونین کا جنہوں نے اس تصنیف میں ان کے قدم سے قدم ملا کر چلے سب کا شکریہ ادا کیا۔
پپئےتفہیم کے حرف ابتدا کے بعد مظہر وسطوی کے ذوق سخن کی بالیدگی، کے نام سے عنوان قائم کرکے ڈاکٹر بدر محمدی نے بڑے تفصیلات سے شاعر کا تعارف، وصف شاعری، انداز شاعری، پیغام شاعری غرضیکہ کہ مظہر وسطوی کے فن شاعری کے تمام پہلوؤں کو مدلل و مفصل انداز میں تبادلہ خیال کرتے ہوئے بہترین تجزیہ پیش کیا ہے، جو مظہر وسطوی کو اور ان کے فن کو سمجھنے میں بہت معاون ثابت ہوگا ۔بعدہ نذرالاسلام نظمی (سابق مدیر، رابطہ، نئی دہلی) چین پور، ویشالی نے اس تصنیف کے تئیں اظہار خیال کیا ۔مشہور ومعروف وبیباک شاعر و ادیب و صحافی ڈاکٹر کامران غنی صبا اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو نیتیشور کالج مظفّر پور، ڈاکٹر ارشد القادری اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ فارسی لکھنؤ یونیورسٹی، لکھنؤ، اور ڈاکٹر عطا عابدی نے بھی آپ کی شاعری وفن پر مثبت تاثرات سے نوازتے ہوئے اس تصنیف پر مباک بادی پیش کی ہے ۔
آپ کی شاعری کا مطالعہ کرنے سے اندازہ ہوا کہ آپ اپنے فن کو بر محل برتنے اور خیالات کو الفاظ کا سہارا و وسیلہ دے کر شاعری میں کس طرح حسن و جاذبیت پیدا کی جائے اس ہنر سے بہ خوبی واقف ہیں ۔ اس کتاب میں شامل غزلیں، شاعر کے فکر وفن کی پختگی کی بھر پور نمائندگی کرتی ہے، روانی و تسلسل کا عالم یہ ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم ایسی سواری پر سوار ہیں جو برق رفتاری سے اپنی منزل کی جانب گامزن ہے، لیکن ذرہ برابر بھی کہیں تھکاوٹ اور جرکن کا احساس نہیں ہورہا ہے ۔ کہیں کہیں ایسا محسوس ہوتا ہے یہ شاعری ہمارے زبان کے راستے دل و دماغ تک اتر کر روح میں پیوست کر گئی ہے ۔اس کم عمری میں بھی شاعر کو زندگی کا مکمل ادراک حاصل ہے۔ شعور و بیداری کے دائرے میں تخیلاتی پرواز تراش کر اپنے اندر کے احساسات و جذبات و خیالات، اپنی خوشیاں، اپنے رنج وغم اور دکھ تکلیف کو حقیقی پیرائے میں آپ بیتی کے ذریعہ جگ بیتی پیغام سنانے کا ہنر رکھتے ہیں ۔لا محالہ وہ اپنی غزل میں اپنی عمر، اپنے عہد کے اٹھنے والے کئ مسائل و مصائب، اور سماج و معاشرے کی بھر پور ترجمانی اور نمائندگی کرتے ہیں- بعض جگہوں پر،، خیر الکلام ما قل ودل،، کا بھی عکس ملتا ہے- شاعر نے دو مصرعوں میں پوری کائنات اور پورے عہد کو سمیٹ کر رکھ دیا ہے- اچھی شاعری کی یہی مظہر وجوہر ہے ۔ لفظوں کا پیچ وخم، ضخیم تعبیرات کے بجائے بات کو سادگی سے بیان کرنے کا عادی ہے۔ زبان کی سلاست، روانی اور مختصر بحروں کے ساتھ اس نے غزل کو ایک نیا رنگ وآہنگ عطا کیا ہے۔
کتاب کی شروعات حصول و برکت کے لئے حمد و نعت سے کی گئی ہے ۔حمد و نعت کے چند اشعار
ہر شئے میں سمایا ہوا کردار وہی ہے
خالق بھی وہی مالک ومختار وہی ہے،
ہر سمت ہیں جلوے بھی، تماشے بھی اسی کے
ہر منظر پر نور میں ضو بار وہی ہے ۔
زمیں پر ان کے آنے سے جہانوں میں نکھار آیا
تڑپتے ذرے ذرے کو سکوں آیا قرار آیا،
خاتم الانبیاء حق کے پیارے رسول
سارے عالم کے والی ہمارے رسول
چاروں جانب اجالا اجالا ہوا
ایسے چمکے قدم کے ستارے رسول ۔
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ انسانی تخیلاتی وتصوراتی پرواز جہاں بلند وبالا ہوں گے وہاں ان کا معیار اور مقام بھی متعین ہوتا ہے۔ اور بلند تخیلات وتصورات اور تجربات کے مشاہدات کے ذریعہ حاصل ہوتے ہیں، مطالعے سے حاصل ہوتے ہیں ۔
الطاف حسین حالی اپنی کتاب مقدمہ شعروشاعری میں کہتے ہیں ” قوت متخیلہ یا تخیل جس کو انگریزی میں امیجینیشن کہتے ہیں۔ یہ قوت جس قدر شاعر میں اعلیٰ درجے کی ہو گی اسی قدر اس کی شاعری اعلیٰ درجے کی ہوگی اور جس قدر ادنیٰ درجے کی ہو گی اسی قدر اس کی شاعری ادنیٰ ہوگی”۔
یہ موصوف محترم کی پہلی کتاب ہے۔ ابھی انہیں اونچی اڑان طے کرکے مزید کامیابی و کامرانی کی طرف جانا ہے، اور یقیناً وہ اپنے ہم عصروں کے لیے شعر و ادب کی دنیا میں ایک معتبر حوالہ بنے گا۔
غزل کے چند اشعار
غریبی میں بھی یوں خوش ہیں بسا اوقات ہنس ہنس کے
قناعت کی کوئی بوسیدہ چادر اوڑھ لیتے ہیں،
جومنصف بن کے آتے ہیں محلے کے تنازع میں
جب اپنے گھر میں ہوتے ہیں تو بستر اوڑھ لیتے ہیں ۔
یہ انداز محبت ہے ادائیں بات کرتی ہیں،
ملاقاتیں نہیں ہوتی ہیں آہیں بات کرتی ہیں
عجب عالم ہے اس دل کا عجب عالم ہے اُس دل کا،
زباں خاموش رہتی ہیں نگاہیں بات کرتی ہیں ۔
دل کی باتیں ساتھ کریں گے گھر آنا
رستے میں کیا بات کریں گے گھر آنا،
اگر سچائی کے حق میں تمھارا فیصلہ ہوگا
محبت کاصلہ پھر اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا،
حسیں خوابوں کے نرغے سے سلامت میں نکل آیا
حسینوں کے قبیلے میں بڑا چرچا ہوا ہوگا،
زمانہ بہت اب خراب آرہا ہے
ترقی کو تھامے عذاب آرہا ہے
محبت کی رسمی علامت ہے یہ بھی
کہ پرزے میں سوکھا گلاب آرہا ہے،
کس نےکہا کہ آج کی دنیا مزے میں ہے
ہر شخص جانتا ہے وہ کتنا مزے میں ہے۔
جذبۂ انسانيت باقی کہاں ہر دل میں ہے
اس لیے تو آج کل ہر آدمی مشکل میں ہے۔
چند متفرق اشعار
پیار الفت کی زبان لشکری اچھی لگی
سب زبانوں میں زبان مادری اچھی لگی،
اس کی شیرنی کی قائل آج ہے ساری زباں
اس سبب اردو زباں کی برتری اچھی لگی،
حاجیو! اعلیٰ مقدر آپ کو میرا سلام
رہ گذار نقش انور، آپ کو میرا سلام،
آپ کی آمد مبارک، مرحبا صد مرحبا
آپ ہیں کعبہ کے زائر، آپ کو میرا سلام،
وہ ننھا پرندہ
شاخ پر چپ چاپ
کیوں بیٹھا ہوا ہے
بہت خاموش اور رنجیدہ!
وہ کلیم درد، میر کارواں رخصت ہوا
پاسبان عظمت اردو زباں رخصت ہوا،
اک ادائے خوش بیاں کی نغمگی جاتی رہی
باغ اردو سے اچانک سر خوشی جاتی رہی،
باکمال فکر وفن، محبوب انور محترم
شاعر طرز سخن، محبوبِ انور محترم،
شاعر کا ایک اپنا انداز وبیاں ہوتا ہے کبھی وہ تجاہل عارفانہ کے ذریعہ سوالی بن کر خود اس کا جواب دیتا ہے، کبھی وہ بیمار ہوکر خود ہی شفا پاجاتا ہے ۔کبھی زندگیوں کی تلخیاں کا تذکرہ کرتا ہے،اور کبھی زیست کی لذت سے متعارف کراتا ہے، غرضیکہ شاعری کے موضوعات کے دائرے بہت وسیع ہوتے ہیں،
آ اس کا سنجیدہ انداز بیان اور بلند خیالی اسے موجودہ دور کے معتبر ناموں کے درمیان منفرد اور نمایاں کرتی ہے۔ اس کے کلام کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ وہ زندگی کے مسائل ومصائب اور محبت میں آنے والے نشیب وفراز، اذیت و کرب کو محسوس تو بہت شدت سے کرتا ہے مگر اظہار اس انداز میں کرتا ہے کہ یہ ہر ایک کے مسائل ومصائب ہیں، گویا وہ آپ بیتی پیغام جگ بیتی کے ساتھ سنا جاتا ہے ۔ سوز وگداز اور ظاہری وباطنی کشمکش کا اظہار بڑے فنکارانہ انداز میں کرتا ہے ۔ کتاب کا ٹائٹل، سر ورق دیدہ زیب اور کتابت معیاری ہے،مزید اس نئی نسل کے شاعر کو اور ان کے فن کو سمجھنے کے لئے ان کی کتاب کا مطالعہ ضروری ہے، نئی نسل کے شاعر وادیب یہ ادب کے عظیم سرمایہ ہوتے ہیں ان کی حوصلہ افزائی بہت ضروری ہے ۔اردو زبان وادب سے منسلک ہر ہر فرد کی ذمہ داریاں ہیں کہ وہ نئے قلمکاروں کی بھر پور حوصلہ افزائی کریں، تاکہ ان حوصلوں سے ان کے فن پر نکھار آئے ۔اور یہی نئی نسل کے شاعر وادیب زبان وادب کے لئے سرمایہ ہوں گے ۔ہم اپنی جانب اور ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے مظہر وسطوی کے اس کار کردگی پر انہیں مبارکبادی پیش کرتے ہیں ۔