عالمی تہذیب کو اسلام کا عطیہ Islam ka atiya book review
مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ
”عالمی تہذیب کو اسلام کا عطیہ“ بڑا اہم موضوع ہے، اس کے مصنف پروفیسر محمد انوار الحق تبسم ہیں- پورنیہ نے جو قیمتی لعل و گہر علم و ادب کی دنیا کو دیا ہے- وہ ان میں سے ایک ہیں- وہ تاریخ کے آدمی ہیں- انہیں نامور مؤرخ عہد وسطیٰ میں اسلامی تاریخ و ثقافت پر گہری نظر رکھنے والے پروفیسر قیام الدین احمد کی شاگردی کا شرف حاصل رہا ہے-ا نہوں نے عظیم مؤرخ پروفیسر سید حسن عسکری سے بھی استفادہ کیا ہے- اسلامی تاریخ و ثقافت سے دلچسپی رکھنے والے چند اور اہل علم کی سر پرستی اور مشورے ان کو ملتے رہے ہیں- ان سب کے ساتھ خود پرفیسر محمد انوار الحق صاحب اپنا تاریخی ذوق رکھتے ہیں- ان کے اس ذوق نے رہنمائی کی اور ”عالمی تہذیب کو اسلام کے عطیہ“ نامی کتاب تیار ہو گئی- اس کتاب کو دیکھ کر بر جستہ یون ہی دارالعلوم دیوبند کا ایک شعر یاد آگیا- جو مولانا ریاست علی بجنوری کی فکر جمیل کا نتیجہ ہے- انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کے حوالہ سے ملکی اور بیرونی دونوں عطایا کا ذکر اشاروں میں کیا ہے ؎
سوبار سنوارا ہے ہم نے اس ملک کے گیسوئے برہم کو
یہ اہل جنوں بتلائیں گے کیا ہم نے دیا ہے عالم کو
پروفیسر محمد انوار الحق تبسم نے فکر وتحقیق کی دنیا بسائی اور اس موضوعسے جنون کی حد تک تعلق قائم کرکے ”عالمی تہذیب کو اسلام کے عطا یا“ کی طرف ہماری راہنمائی کی ہے- یہ ٹو ان ون (Two in one) کتاب ہے- ایک حصہ کتاب کے اصل موضوع پر مشتمل ہے جو اکاسی (٨١) صفحات تک پھیلا ہوا ہے- صفحہ براسی (۸٢) سے ان کتابوں اور شخصیات کے تعارف کا سلسلہ تعلیقات کے عنوان سے درج ہے- یہ تعلیقات انتہائی مفید ہیں، جو اصل کتاب سے زیادہ صفحات پر پھیلے ہوئے ہیں- یہ سلسلہ صفحہ ایک سو تہتر(١٨٣) پر جا کر ختم ہوتا ہے۔ یہ در اصل اشاریہ اور انڈکس کی بدلی ہوئی شکل ہے- جس کے مندرجات کو تفصیلی اور تحقیقی بنا کر تبسم صاحب نے انڈکس کی بہ نسبت زیادہ مفید اور کارآمد بنا دیا ہے۔
تاثرات کا سلسلہ بھی روایت سے ہٹ کر پسِ لفظ کے عنوان سے کتاب کے آخر میں ہے اور ان میں بڑے اساطین علم و ادب کے رشحات شامل ہیں- پروفیسر اخترالواسع، پروفیسر خالد محمود، جناب شفیع مشہدی، پروفیسر علیم اللہ حالی، پروفیسر محمد غفار صدیقی، پروفیسر فاروق احمد صدیقی جب کسی کتاب کو ”انتہائی اہمیت کا حامل، فنون لطیفہ، سائنس اور مذہبی علوم پر گراں قدر خدمات کا مجموعہ“ قرار دیتے ہوں- موضوعات کے کثیر الجہات تنوع کے ساتھ مصنف کے ذوق کی بالیدگی، تلاش وتحقیق کی حوصلہ مندی، فہم وفراست کی دقیقہ سنجی، تجزیہ کی دلآویزی اور طرز تحریر کی جامعیت“ کی وجہ سے کتاب کے ”امتیازی شان کے معترف ہوں کہ جس کتاب کے بارے میں ”سائنس، حدیث، تفسیر اور مختلف مسلک کے ساتھ خطاطی، مصوری، ثقافتی، موسیقی اور فن تعمیرات جیسے موضوعات کو کتاب میں شامل کرکے موضوع میں وسعت“ پیدا کرنے کی بات کہی گئی ہو،”جس کتاب میں قابل اعتماد فرامین اور نا قابل تنقید ماخذ پیش کرکے اپنی تحریر کو اسناد کی منزل تک پہونچا دیا گیا ہو“، اور جس کتاب میں مصنف نے اپنی بالغ نظری سے سمندر کو کوزہ میں بند کرنے کا ہنر دکھایا ہو، جس کتاب میں بقول خالد محمود شاید” ایک بھی جملہ علم و آگہی سے خالی نہیں ہو“، اُس کتاب کے مندرجات کو بغیر تحقیق و تفتیش کے قبول کرہی لینا چاہئے، ورنہ تحقیقی تبصرہ لکھنے بیٹھیے گا تو آپ کے پاس بھی پروفیسر انوار الحق تبسم کی طرح تاریخ و تہذیب اور ثقافت اسلامی کا گہرا علم ہونا چاہیے، گہرا نہ بھی ہو تو ان کے مطالعہ کی وسعت تو لیے ہوئے ہو۔
##
پہلی بار اس کتاب کے مندرجات کو دیکھ کو معلوم ہوا کہ نبوت محمد، اساس دین، حدیث، تفسیر، فقہ، مسالک ائمہئ اربعہ اور تجدید احیاء دین بھی تہذیب و ثقافت کا ہی حصہ ہیں- ایسا در اصل مصنف کے نزدیک تہذیب کا واضح تصور نہ ہونے یا مذہب، مسلک اور تہذیب کو ایک دوسرے کا مترادف یا قریب المعنی سمجھ لینے کی وجہ سے ہوا ہے- مسلک کا تو تہذیب سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے، البتہ مذہب اور تہذیب کا حروف اصلی ایک ہی ہے- شاید اسی وجہ سے مصنف کو غلط فہمی ہوئی- خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ مذہب تہذیب نہیں ہے- لیکن ہر مذہب کی اپنی تہذیب ہوتی ہے- جو حرکات و سکنات، اٹھنے بیٹھنے، بود و باش اور خود مذہب کی تعلیمات کی روشنی میں وجود پذیر ہوتی ہے- اسلام کے حوالہ سے جب ہم بات کرتے ہیں تو اس کی شناخت اسلامی تہذیب کے عنوان سے کراتے ہیں اور اسے ”عالمی تہذیب کو اسلام کا عطیہ“ کہا جا سکتا ہے، لیکن اس کتاب کا نام ”اسلام کا عطیہ“ کے بجائے ”مسلمانوں کا عطیہ“ زیادہ مناسب ہے- کیوں کہ مصوری، موسیقی وغیرہ کے بارے میں جو کچھ اس کتاب میں لکھا گیا ہے اس کا اسلام سے تعلق نہیں ہے، البتہ مسلمانوں کے حوالہ سے بات کی جا سکتی ہے- میں اس اہم کتاب کی تصنیف پر پروفیسر محمد انوار الحق تبسم کو مبارکباد دیتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اردو، فارسی اور انگریزی میں شائع ان کی دوسری کتابوں کی طرح یہ کتاب بھی مقبولیت کے بلند مقام تک رسائی حاصل کرے۔
کتاب کی اشاعت میں نمایاں کردار
کتاب کی کمپوزنگ تسنیم کوثر نے کی ہے- ترتیب و تزئین میں نازیہ عمران، مہرین عرفان کی فنی مہارت کام آئی ہے- طباعت روشان پرنٹرس دہلی کی ہے- تقسیم کا کام ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس کے ذمہ ہے- دہلی، علی گڈھ، الٰہ آباد، اعظم گڈھ، گنیش پور، ممبئی، پٹنہ، ارریہ، کولکاتہ، حیدر آباد، پورنیہ کے سولہ پتوں سے یہ کتاب حاصل کی جا سکتی ہے- آپ پٹنہ میں ہیں تو بک امپوریم سبزی باغ سے حاصل کر لیجئے ورنہ کتاب پر مصنف کے کئی موبائل نمبر درج ہیں- کسی پر رابطہ کر لیجئے، ایک سو چھہتر صفحات کی قیمت دو سو پچھہتر روپے زائد معلوم ہو تو تخفیف کی درخواست لگا دیجئے- بلا واسطہ لینے میں بک سیلروں کو دی جانے والی رعایت کے آپ بھی مستحق ہو سکتے ہیں۔