کہنے کو سلامت ہوں، مگر ٹوٹ رہا ہوں اردو شاعری | منظر شاعری
کہنے کو سلامت ہوں،
مگر ٹوٹ رہا ہوں
حالات کے ہاتھوں کا
کھلونا جو بنا ہوں
اِمکانِ تحفظ نہیں،
دیپک ہوں سرِ راہ
بجھ جاؤں گا آندھی سے
مگر جوجھ رہا ہوں
بارش ستم و جَور کی
میرے ہی لئے ہے
ناکردہ گناہوں کا
سزاوار ہوا ہوں
بس دیکھ کے اوپر سے ہی
مایوس ہیں کیوں آپ
کنکر نہیں الماس ہوں،
مٹی سے اَٹا ہوں
ہر حال میں رکھٌا ہے
بھرم مَیں نے وفا کا
مت دیجئے الزام کہ
مَیں ننگِ وفا ہوں
جھیلے ہیں بہت مَیں نے بھی
آلام کے جھونکے
صد شکر خدا، اپنے ہی
پیروں پہ کھڑا ہوں
اپنوں کی محبت کا بھرم
کھُل گیا منظر
ایٌامِ مصیبت میں جب
اپنوں سے ملا ہوں
شاعر
ڈاکٹر مقبول منظر
صدر شعبۂ اردو
گوپی ناتھ سنگھ مہیلا کالج
گڑھوا جھارکھنڈ