ائمہ کی تنخواہ کی سرکاری ادائیگی | امام کی تنخواہ کی سرکاری ادائیگی
ملک کی اکثر و بیشتر ریاست میں سرکار کا ایک محکمہ وقف بورڈ ہے، اس کے ذمہ اوقاف کے تحفظ اور اس کی املاک سے ہونے والی آمدنی کے استعمال کا اختیار ہے- اوقاف مسلم پرسنل لا کے تحت آتے ہیں، اس لیے اس کی آمدنی کو خرچ کرتے وقت واقف کے منشا کی رعایت کی جاتی ہے- بہت سارے اوقاف مساجد کے ہیں، جن کی آمدنی کو مفاد مسجد میں خرچ کرنا متولیان کی ذمہ داری ہے- اس ذمہ داری کی انجام دہی کے لیے اوقاف کی زمینوں پر واقع مساجد کے ائمہ کو وقف بورڈ کے ذریعہ وظیفہ دیا جاتا ہے اور کہیں کہیں تنخواہ کی ادائیگی بھی کی جاتی ہے-، اس سلسلے میں پنجاب، دہلی اور بہار کا نام لیا جا سکتا ہے۔
ابھی حال میں مرکزی اطلاعاتی کمیشن کے کمشنر” اُدے مہور کر“ نے اس پر سوالات اٹھائے ہیں اور اسے غیر قانونی قرار دیا ہے- ان کا کہنا ہے کہ کل ہند تنظیم ائمہ مساجد کی عرضی پر ١٩٣٩ ء میں عدالت عظمیٰ ( سپریم کورٹ) کا فیصلہ قانون کے خلاف ہے- یہ تبصرہ انہوں نے سبھاش اگروال کی اس عرضی پر کیا جو اس نے وقف بورڈ سے امام اور موذن کو ملنے والی تنخواہ پر اطلاعاتی کمیشن میں داخل کیا تھا- مرکزی اطلاعاتی کمشنر نے وقف بورڈ کو یہ بھی ہدایت دی ہے کہ اس اطلاعات کے حاصل کرنے میں سبھاش اگروال کا جو وقت لگا اور اسے جو پریشانیاں ہوئیں- اس کے عوض وقف بورڈ اسے پچیس ہزار روپے ہرجانہ دے۔
کمشنر برائے اطلاعات کی رائے یہ تھی کہ تمام مذاہب کے عبادت کرانے والوں کو برابر کی تنخواہ دی جانی چاہیے- بقول یہ عجیب بات ہے کہ امام اور موذن کو تو اٹھارہ ہزار اور سولہ ہزار روپے ماہانہ ملے اور ہندو وقف (نیاس) کے پجاریوں کو دو ہزار روپے دیا جائے- کمشنر صاحب یہ بھول گیے کہ جس وقف کی جیسی آمدنی ہے- اس کے اعتبار سے وظائف مقرر کیے جاتے ہیں، نیاس کی آمدنی کا بڑا حصہ پجاریوں کے پاس بلا حساب و کتاب منتقل ہو جاتا ہے- نیاس بورڈ کے ذریعہ دی جانے والی دو ہزار کی رقم صرف ٹوکن منی ہے جو نیاس سے پجاریوں کے تعلق کی علامت ہے- ظاہر ہے سب جگہ کشور کنال جیسا ذمہ دار تو ہے نہیں، جس نے گذشتہ بیس پچیس سالوں میں مندروں کی آمدنی سے مہابیر کینسر جیسا اسپتال کھڑا کر دیا اور دوسری جگہوں پر بھی مندر کی آمدنی کو ہندو سماج کے لیے با رآور اور ثمر دار بنانے کے لیے غیر معمولی کام کیا ہے۔
اس کے بر عکس اوقاف کی آمدنی کا معاملہ ہے، یقینا لوٹ کھسوٹ یہاں بھی کم نہیں ہے، لیکن بڑی حد تک کوشش کی جاتی ہے کہ اسے خُرد بُرد سے بچایا جائے اور چوں کہ یہ وقف جن کاموں کے لیے کیا گیا ہے، ان کے مدات کی رعایت ہمارا شرعی فریضہ ہے- اس کی یک گونہ حفاظت وقف بورڈ کے ساتھ متولیان اور کمیٹی کے دیگر افراد بھی کرنا اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں، اس لیے یہاں کی رقم ائمہ مساجد اور مو ¿ذنین پر خرچ کی جاتی ہے۔
کمشنر برائے اطلاعات ادے مہور کرنے یہ بھی کہا کہ موذن اور امام کی یہ تنخواہ سرکاری ٹیکس کی رقم سے دی جاتی ہے، وہ یہ بتانا بھول گیے یہ ٹیکس کی رقم بھی سرکار کے خزانے میں اوقاف کی آمدنی سے ہی آتی ہے- ، مختلف ریاستوں میں اوقاف کی آمدنی پر الگ الگ ٹیکس لیا جاتا ہے، حالاں کہ ہمارا مطالبہ قدیم ہے کہ اوقاف کی جائیداد کو ٹیکس سے مستثنیٰ کیا جائے۔
اس پورے قضیہ میں یہ مسئلہ بھی بڑا اہم ہے کہ کیا سپریم کورٹ کے فیصلے پر اس قسم کا تبصرہ مناسب ہے، یہ تو توہین عدالت کے مترادف ہے، اس کا طریقہ یہ ہے کہ اس معاملہ کو سپریم کورٹ میں پھر سے اٹھایا جائے اور عدالت اس پر نظر ثانی کرے، یہ تو ہو سکتا ہے؛ لیکن عدالت کے فیصلے پر اس قسم کا تبصرہ عدالتی نظام کو کمزور کرنے کے مترادف ہے، اس لیے” ادے مہور کر“ کو اس قسم کے تبصرے سے بچنا چاہیے۔