آبروئے قلم مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی | مفتی ثناء الھدی قاسمی کی حالات زندگی و ادبی خدمات
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ، مدیر ہفت روزہ نقیب اورصدر وفاق المدارس اسلامیہ بہار آبروئے قلم مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی صاحب ہند و پاک کے ایک کہنہ مشق اور مقبول عام خواص نثر نگار ہیں، بلکہ سچ پوچھئے تو وہ نثر میں "شاعری" کرتے ہیں- ان کی زبان بھی سادہ ششتہ اور قلم بھی شگفتہ و برجستہ ہے- وہ دیکھنے میں بھی یادگار اسلاف ہیں اور قلم کی جولانی بھی جدید قالب میں قدیم عنصر کو دلچسپ پیرائے میں نمایاں کرتی ہے- وہ اپنی عادت کے اعتبار سے اصلاحی ،دینی، تعلیمی، تحقیقی یا سیرت و سوانح جس پہلو پر خامہ فرسائی کرتے ہیں- اس کا حق ادا کرتے ہیں- عام طور پر مضمون چھوٹا ہو یا بڑا، وہ طویل مقدمہ و تمہید نگاری سے قاری کو بور نہیں کرتے، وہ کم لفظوں میں پس منظر بیان کرتے ہیں یا کبھی نفس مضمون پر ہی بات شروع کر دیتے ہیں اور سیدھی سیدھی بات کہہ کر اپنے قارئین کو نفس مسئلہ سے فیض یاب کرتے ہیں- ان کا مضمون سادہ ہوتا ہے- وہ "قاف لام " کے نہ آدمی ہیں اور نہ بے وجہ قاف لام یا "لیکن چنانچہ" کو پسند کرتے ہیں- وہ اپنی تحریروں کو عربی فارسی زدہ عبارتوں سے بوجھل کئے بغیر روز مرہ کی زبان میں صاف صاف لکھتے ہیں- لکھنے پڑھنے کے آدمی ہیں - اس لئے خشک موضوع کو بھی قابل استفادہ اور دلچسپ بناکر پیش کرنے کا ہنر و فن ان کے پاس ہے- بے نفس ہیں، مگر کام و کردار میں دراز نفس، مسلسل سوچنا اور سوچ کر برتنا ان کی دیگر صفتوں میں ایک ممتاز صفت ہے- ماضی قریب کے اکابرین سے گہرے مراسم کی بنیاد ان کا مضبوط علم و قلم اور صلاحیت وصالحیت رہی ہے-کمال کی بات یہ ہے کہ باتوں کو پیش کرنے میں وہ زبان و قلم پر یکساں قدرت رکھتے ہیں- یعنی ان کے لطائف علمیہ پر جس طرح سامع مسکراتے ہیں اور لذت کام و دہن محسوس کرتے ہیں -بعینہ ان کی تحریرات کو پڑھ کر بھی قارئین ویسے ہی عش عش کر سامان تسلی پاتے ہیں۔
میرے احساس میں یہ پہلے خوش نصیب صاحب قلم مولوی ہیں، جن کی دانشوری کو مروج حلقہ ادب و دانشوری میں قبولیت عطا کی گئی ہے، ورنہ کم لفظوں کی کہانی لکھنے والے کتنے مولوی آئے گئے. بہار کی سطح پر اردو اور اہل اردو ادب کی مجالس میں اکثران کا عکس نظر آجاتا ہے یا ملک و بیرون ملک شائع ہونے والے اردو رسالوں میں ان کے مضامین کو خصوصیت سے جگہ ملتی ہے۔
ابھی حال میں جواں سال قلم کار جناب مولانا عبد الرحیم برہولیاوی نے مفتی صاحب کے شخص و نقش کو موضوع بنا کر " مفتی صاحب شعراء کی نظر میں " ترتیب دیا ہے، جس میں تقریبا اکتیس شعراء نے ان کے قلمی و ادبی فکر و فن کو تسلیم کیا ہے اور برجستہ کلام پیش کر مفتی صاحب کے رنگ و آہنگ قلم کو سامنے لانے کی حوصلہ افزاء خدمت کی ہے۔
اسی طرح مفتی صاحب نے اپنی" آدھی ملاقات " میں جس طرح سے مختلف جہتوں سے قلمی سرمائے کو تحفظ فراہم کیا ہے وہ بالیقین نئی نسل کے لئے آئینہ ہے- کتاب ہاتھ میں لیجئے تو مانو سبھوں سے "پوری ملاقات" ہوگئی۔
ان کے اصلاحی مضامین کا مجموعہ "حرف حرف زندگی" پر ایک سرسری نظر ڈالا جائیے تو لگے کا کہ میرے ذاتی احوال و سوالات کو سامنے رکھ کر ایک نشست میں انہوں نے یہ کتاب ترتیب دی ہے- چھوٹے چھوٹے مضامین جو زندگی کی گرہیں کھولتی نظر آتی ہیں- یہ کتاب بھی ایسی ہے کہ تکیہ کے برابر میں سرہانے رکھ کر سوجائیے تاکہ صبح کو پہلی نظر "باتیں جس سے زندگی سنورتی ہیں" پر پڑ سکے۔
میرے سامنے" یادوں کے چراغ" کی چوتھی جلد ہے- کتاب میں ہاتھ لگانے کے بعد بہت سے ضروری کام بھی آگے پیچھے ہوجاتے ہیں، چوں کہ دوران مطالعہ بعض ایسی محبوب و مطلوب شخصیتوں کی جہتیں ابھر کر سامنے آتی ہیں، جن سے کبھی دید و شنید گرچہ نہ سہی، مگر جب ان شخصیتوں پر پہلی مرتبہ کوئی لکھے اور محبت کے قلم سے لکھے تو بغیر پڑھے کون ہے جو آگے بڑھ جائے، اس کتاب میں بھی ان کا سحر آفریں قلم، قاری کو اپنا اسیر بناکر چھوڑتا ہے- کتاب میں مذکور کسی بھی شخصیت کا خاکہ پڑھ جائیے - محسوس ہوگا کہ سامنے ان سے باتیں ہورہی ہیں۔ سچ ہی کہا گیا ہےکہ
"یہ رتبہ بلند ملاجس کو مل گیا"
مفتی صاحب میں کودنے پھاند نے کا نہ ذوق ہے اور نہ اس کا احساس- وہ سبک روی مگر نشان منزل پر مسلسل چلتے رہنے کے قائل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صغر سنی میں سال سمئے کے بعد جو انہوں نے چلنا شروع کیا ہے تو بس چلے جا رہے ہیں اور شاید انہیں یقین ہے کہ
گر تجھے منزل تک پہنچنا ہے تو چل پاؤں پہ اپنے
کب تلک کوئی راستہ ہموار کرے گا
اسی لئے ان کے پاس مکتبی کی زندگی کے علمی و قلمی نمونے "آثار قدیمہ" کی شکل میں آج بھی محفوظ ہیں- بچپن سے انہیں اس سے کوئی مطلب نہیں کہ کون خود سے چل رہا ہے اور کون بیساکھی کے سہارے عروج پارہا ہے- انہیں اپنے دم قدم پر کل بھی بھروسہ تھا اور آج بھی ہے اور درست بات یہ ہے کہ ان جیسی نمونہ صفت شخصیتوں کو رہنا بھی چاہئے۔ اسی تسلسل و تحمل کا نتیجہ ہے کہ وہ جہاں، جس شعبہ میں بھی ہیں، جن ذمہ داریوں کے مکلف ہیں- ان امور مفوضہ کو وہ پورے سولہ آنہ سر انجام دینے کے جذبے سے محنت کرتے ہیں۔ زندگی کے شب و روز میں متنوع خدمات کے ساتھ ساتھ اب تک مطبوعہ غیر مطبوعہ اصلاحی، دعوتی، فکری، سماجی، تعلیمی اور قرآن و حدیث پر مشتمل درسی غیر درسی پچاس سے زائد کتابیں ان کے گہر بار قلم سے منصہ شہود پر آ چکی ہیں ۔
گذشتہ دنوں 6 نومبر 2022 کو امارت شرعیہ پٹنہ کے المعہد العالی میں منعقد مدارس اسلامیہ کنونشن کے موقع پر ان سے ملاقاتیں ہوئیں- کئی ایک کتابیں انہوں نے ازراہ شفقت و استفادہ اس عاجز کو عنایت کیں فجزاکم اللہ خیرا ۔
حضرت مفتی صاحب کو میرے ان کوتاہ قد جملوں سے نہ دلچسپی نہ توقع- یہ اس عاجز کا ذاتی احساس ہے جو بے ربط طریقے سے الفاظ کی شکل لیتا چلا گیا، ورنہ بہت سے آسمانوں نے انہیں قریب سے سمجھا پرکھا اور برتا اوران پر اچھا لکھا بھی ہے- وہ انسانی صلہ سے بےپرواہ مگر رب کائنات کے صلے کا محتاج اور آرزو مند رہ کرامارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ جیسے تاریخی ادارے میں صبر و شکر کے ساتھ برسوں سے علم و دین اور انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں-
اللہ رب العزت انہیں صحت و عافیت کے زیر اثرلانبی عمر بخشے کہ وہ اس وقت آبروئے قلم ہیں نیز! آوروں میں" وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی "
عین الحق امینی قاسمی
نائب صدر جمعیۃ علماء بیگو سرائے۔