افسانہ نائی کا تقویٰ| اصلاحی افسانہ | Afsana Naayi ka Taqwa
مصنف - خالد سیف اللہ صدیقی
فاضل دارالعلوم، دیوبند
ایک دن بال کٹانے کے لیے میں نائی کی دکان پر گیا۔ وہاں پہلے سے دو شخص موجود تھے۔ ایک نوجوان تھا اور ایک عمر رسیدہ۔ میں دونوں کے درمیان بیٹھ گیا۔ پھر میں نے یہ اندازہ لگانے کے لیے کہ میری باری کتنی دیر میں آ سکتی ہے، نوجوان سے پوچھا : کیا آپ بھی بال کٹاؤگے؟
نوجوان بولا : ہاں، کٹانا تو ہے؛ مگر یہ (نائی) کاٹنے سے انکار کر رہا ہے۔ مجھے اس کی بات ذرا غیر معقول سی لگی ؛ اس لیے میں نے لاپروائی سے اپنا رخ پھیر لیا اور دونوں خاموش ہو رہے۔
دو چار منٹ بعد پھر نائی بولا : یہ دونوں طرف سے کٹانا اور بیچ کے حصے کو چھوڑنا چاہتے ہیں۔ میں ان سے کہہ رہا ہوں کہ ہم اس طرح کے بال نہیں کاٹتے۔ پھر اس نے مزید وضاحت کرتے ہوۓ کہا کہ ہم انگریزی بال نہیں کاٹتے اور نہ داڑھی ہی مونڈتے ہیں! مجھے اس کی یہ خدا ترس باتیں سن کر خوشی ہوئی؛ چناں چہ میں نے اس کی دل سے تائید کی اور کہا : آپ اچھا کرتے ہیں! آپ کو ایسا ہی کرنا چاہیے!
پھر میں نوجوان کی طرف متوجہ ہوا اور اس کو سمجھانے لگا کہ بھائی! اس طرح کے بال نہیں کٹاتے! یہ انگریزی طریقہ ہے۔ یہ منع ہے۔ نوجوان تاویل کرنے لگا۔ میں نے اس کو دوبارہ سمجھانے کی کوشش کی؛ مگر وہ اپنے ارادے پر جما رہا۔ نائی ہمارا یہ مکالمہ اور افہام و تفہیم دیکھ اور سن رہا تھا۔ جب دیکھا کہ نوجوان اپنی ضد پر اڑا ہوا ہے اور کسی طرح ماننے کو تیار نہیں، تو وہ نوجوان سے مخاطب ہوا اور بولا : فلاں کے پاس چلے جاؤ وہ تمہاری مرضی کے بال کاٹ دے گا۔ نوجوان اٹھا اور بوجھل قدموں کے ساتھ دکان سے باہر نکل گیا۔
ابھی کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ نوجوان واپس آ گیا۔ پھر نائی اور اس میں کچھ تبادلہ خیال ہوا اور اس کو دوبارہ کسی دکان میں چلے جانے کا مشورہ دے دیا گیا اور اسے بھی بادل نہ خواستہ وہاں سے نکل جانا پڑا۔
نوجوان کے چلے جانے کے بعد اتفاق سے میری نظر نائی کے چہرے پر پڑی اور کچھ گڑ سی گئی۔ اس وقت میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ نائی کی داڑھی مونڈی ہوئی ہے۔
میں نے دل میں سوچا
خدایا! یہ کیسی بات ہے کہ یہ شخص دوسروں کی تو داڑھیاں نہیں کاٹتا؛ مگر اپنی مونڈاتا ہے! یہ کیسی منطق یا کیسا فلسفہ
اصلاحی افسانہ اردو میں نائی کا تقویٰ
ذرا غور کیجیے! ایک شخص جو ایک معاملے میں دوسروں کے ساتھ اتنا سخت رویہ برت رہا ہے- وہ اپنے حق میں اسی معاملے میں کس قدر نرم اور روادار واقع ہوا ہے۔ آخر نیکو کاری اور صلاح و تقوی کا یہ کون سا معقول طریقہ ہے؟ کیا خدا خوفی اور خدا ترسی کا یہی معیار ہونا چاہیے؟
بات صرف کسی نائی یا دکان دار کی نہیں ہے۔ موجودہ دور کے تقریبا تمام مسلمانوں کا یہی حال ہے۔ دین کی واضح کھلی کھلی اور سچی سیدھی باتوں پر عمل کرنے کے بجاۓ مبہم، مشکوک اور باطل قسم کی چیزوں میں پڑے رہتے ہیں۔ خدائی احکام کو من و عن قبول کرنے کے بجاۓ ان میں رد و بدل اور ترمیم کرتے ہیں۔ حقیقی، صاف ستھرے، سیدھے سادے اور فطری دین پر چلنا انہیں گوارا نہیں۔