Afsana bheek ka Khulasa Urdu Medium| افسانہ بھیک کا خلاصہ اردو میڈیم میں
افسانہ ’بھیک‘ ہماری نصابی کتاب ’نوائے اردو‘ سے لیا گیا ہے۔ اس کے مصنف ’حیات اللہ انصاری‘ ہیں۔ اس افسانے میں انھوں نے انسان کی بنیادی ضروریات کو پیش کیا ہے کہ انسان کو اپنی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے کتنی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور کس طرح ضروریات پوری نہ ہونے پر اس کا رشتوں پر بھی اثر پڑتا ہے۔
افسانہ بھیک کا مرکزی کرداروں کا نام
اس افسانے کے رجنی اور کیلاش دو خاص مرکزی کردار ہیں- اس کے علاوہ رجنی کے بھائی بہن ہیں جن کے نام عمر کے لحاظ سے یہ ہیں-
افسانہ بھیک کا خلاصہ اردو میں | Afsana Bheek ka khulasa urdu me
افسانہ بھیک میں افسانہ نگار حیات اللہ انصاری نے ایک لڑکی رجنی کی کہانی بیان کی ہے۔ رجنی کے ماں باپ نہیں ہیں اس کے پانچ بہن بھائی ہیں۔ جن کی ذمہ داری رجنی پر ہی ہے۔ یہ لڑکی بھیک مانگ کر، چھوٹے موٹے کام کر کے اپنے بہن بھائیوں کا پیٹ بھرتی ہے۔ وہ وادیوں کی گہرائی میں بہت نیچے رہتی تھی۔ اس کی جھوپڑی کا دروازہ بھی ٹوٹا ہوا تھا۔ جس میں ڈر کے سائے میں وہ سب زندگی گزارتے تھے کہ کہیں کوئی جانور وغیرہ رات کے اندھیرے میں کھا نہ جائے۔
کہانی اس طرح شروع ہوتی ہے کہ ایک شخص ہے جس کا نام کیلاش ہے- کیلاش اپنی بہنوں کے ساتھ موتی نگر آتا ہے اور اس جگہ کی خوبصورتی اور تازہ ماحول میں کھو جاتا ہے۔ وہ سامان رکھوا کر یونہی پیدل نکل جاتا ہے۔ وہ آس پاس دیکھتا ہوا چل رہا ہوتا ہے۔ راستے میں اس کو ایک رجنی نام کی لڑکی ملتی ہے،جو اس سے تھرماس اٹھانے کے لیے پوچھتی ہے۔ کیلاش کو بھی تھرماس بھاری لگ رہا تھا، وہ اٹھانے کے لیے کہہ دیتا ہے۔ راستے میں چلتے ہوئے کیلاش رجنی سے اس کے بارے میں پوچھتا ہے، تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک یتیم لڑکی ہے اور اس کا ایک چھوٹا بھائی بھی ہے جو دو سال کا ہے۔اس کو رجنی پر رحم آجاتا ہے اور وہ اس کو نوکری پر رکھنے کے لیے پوچھتا ہے۔ رجنی بہت خوش ہوتی ہے اور خوشی کے مارے رات بھر سو بھی نہیں پاتی کہ کل کا سورج اس کی زندگی کو بھی روشن کر دے گا اور اب اس کو اور اس کے بہن بھائیوں کو بہتر زندگی ملے گی، جس میں کھانے کے لیے روٹیاں، کھانا، پہننے کو کپڑے، سونے کے لیے بستر ہوں گے۔ پھر وہ صبح ہوتے ہی اپنے پانچوں بہن بھائیوں کو لے کر کیلاش کے گھر جانے کے لیے نکلتی ہے- کیلاش کا گھر پانچ سو فٹ اوپر تھا۔ بہت مشکلات کا سامناکرتے ہوئے اور ایک نئی زندگی کا خواب دیکھتے ہوئے سبھی اوپر پہنچ جاتے ہیں۔ ایک ایسی رندگی کی امید لئے جس میں بھوک، ٹھنڈ، جنگلی جانوروں کے آ جانے کا ڈر نہیں تھا۔ لیکن جب کیلاش کو پتا چلتا ہے کہ رجنی کے ساتھ اس کے پانچ بہن بھائی اور ہیں تو اس کو بہت غصّہ آتا ہے- اور کہتا ہے کہ تم نے کل کیوں نہیں بتایا کہ تمہارے ساتھ اتنی بڑی فوج ہے۔ اتنے لوگوں کو میں کہاں رکھ سکتا ہوں۔ یہ سن کر رجنی پر جیسے بجلی سی گر پڑی۔
وہ مایوس ہو گئی کیوں کہ اس نے نوکری کا نام سن کر بہت بہتر زندگی گزارنے کے خواب سجا لیے تھے جو اب ایک پَل میں ہی ٹوٹ گئے۔ وہ اپنے بہن بھائیوں کو مایوسی اور نا امیدی کے ساتھ لے کر واپس جانے لگی۔ تبھی کیلاش نے اس کو ’دو‘ روپیے دئیے۔ وہ بچّے بازار کی طرف بھاگے گئے۔ بھر پوریاں کھائیں اور سارے پیشے ختم ہوگیے لیکن نہ بھوک گئی اور نہ ہی کھانے کی حسرت۔ پھر وہ بچّے اپنی اُسی جھوپڑی میں واپس چلے گئے۔ جس میں بھوک تھی، ڈر تھا، مفلسی تھی، ٹھنڈ تھی-
افسانہ بھیک کا مرکزی خیال
حیات اللہ انصاری نے افسانہ بھیک میں رجنی کے ذریعے ایک لڑکی کی ممتا کو دکھایا ہے، جو خود چھوٹی ہے مگر اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ جیسا بھی رویہ ہو مگر ان کو چھوڑ کر نہیں جاتی- وہ چاہے تو اکیلی ایک بہتر زندگی گزار سکتی تھی، مگر جب کیلاش نے اتنے بچّوں کو دیکھ کر نوکری دینے کے لیے منع کر دیا تو وہ اسی غربت میں اپنے بہن بھائیوں سمیت واپس آ گئی۔
٭ اس افسانے میں انسان کی بنیادی ضروریات کو پیش کیا گیا ہے کہ انسان کو یہ ضروریات پوری کرنے کے لیے کتنی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔