گرمی اور دیہاتی بازار | گرمی اور دیہاتی بازار کا خلاصہ | Garmi aur Dehati Bazar
اردو شاعری میں جوشِ ملیح آبادی شاعر انقلاب کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں- نظم گرمی اور دیہاتی بازار جوش ملیح آبادی کی نظم ہے- اردو نظموں میں منظر کشی کے لئے جوش ملیح آبادی مشہورِ ہیں- نظم گرمی اور دیہاتی بازار کی بڑی خوبصورت عکاسی کی ہے- گرمی کی دوپہر ہے'- لو چل رہی ہے- زمین تپ رہی ہے- پھر بھی بازار میں ہلچل ہے- قطاروں میں جانور بکنے کے لئے کھڑے ہیں- کہیں مرچ کی دھانس لگ رہی ہے تو کہیں گڑ پر مکھیاں بھنبھنا رہی ہیں- چلچلاتی دھوپ میں کوئی چنا بھون رہا ہے- ٹاٹ پر سرخ دھان اور جو کے ڈھیر لگے ہیں اس جھکڑ میں بھی بوڑھوں کے کھانسنے کی آوازیں آتی ہیں- غلوں اور سبزیوں کی دکانیں سجی ہوئی ہیں- مائیں اپنے بچوں کو کاندھوں پر لیے خرید و فروخت میں لگی ہوئی ہے-
جوش ملیح آبادی کی نظم گرمی اور دیہاتی بازار
درختوں کے سایوں سے دھوپ چھنن رہی ہے- لو کی شدت سبھوں کو پریشان کر رہی ہے-کوئی کسی کو نہیں پہچان رہا ہے- آسمان پر بادلوں کے ٹکڑے ادھر ادھر ایسا گھوم رہے ہیں جیسے کوئی کنجوس شرابی وعدہ انعام کر رہا ہو- ہر جگہ چڑچڑاپن اور بے رخی ہے- سر پر یہ کڑی دھوپ روح پر گناہ کا عکس معلوم ہوتی ہے- تیز کرنیں سود خوروں کی نگاہ معلوم ہوتی ہے-