دنیا میری بلا جانے مہنگی ہے یا سستی ہے- فانی بدایونی کی غزل
اردو میڈیم میں آپ کا خیر مقدم ہے- تشریحات کے تحت پیش ہے فانی بدایونی کی غزل کی تشریح- امتحان میں غزل، نظم، رباعی وغیرہ کی تشریحات ضرور پوچھے جاتے ہیں- غزل کی تشریح پیش خدمت ہے-
دنیا میری بلا جانے مہنگی ہے یا سستی ہے
موت ملے تو مفت نہ لوں ہستی کی کیا ہستی ہے
درج شعر فانی بدایونی کی غزل سے لیا گیا ہے- یہ غزل کا مطلع ہے- اس شعر میں فانی کہتے ہیں کہ دنیا میری بلا سے مہنگی ہے یا سستی ہے مجھے کوئی مطلب نہیں- بات تو یہ ہے کہ اگر موت بھی مجھے مفت ملے تو اسے نہ لوں اس ہستی کی کیا ہستی ہے- مطلب اس دنیا کی کوئی ہستی نہیں ہے-
فانی کی غزل کی تشریحات | Ghazal ki Tashrih
آبادی بھی دیکھی ہے ویرانے بھی دیکھے ہیں
جو اجڑے اور پھر نہ بسے دل وہ نرالی بستی ہے
شعر کی تشریح - اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ میں نے آبادی بھی دیکھی ہے- کئی بستی بھی دیکھی ہے- ویرانی بھی دیکھی ہے- آبادیاں اجڑتی ہیں بستی ہیں- مگر دل ایک نرالی دستی ہے جو ایک اجڑ جائے تو پھر نہیں بستی ہے- آبادی اجڑ کر ویران ہو جاتی ہے اور ویرانیاں بس کر آباد ہو جاتی ہیں مگر دل کی بستی دوبارہ نہیں بستی-
جان سی شئے بک جاتی ہے ایک نظر کے بدلے میں
آگے مرضی گاہک کی ان داموں تو سستی ہے
شعر کی تشریح- اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ دنیا سب کچھ بکتا ہے- یہاں تک کہ ایک محبت بھری نظر کے بدلے میں جان بھی بک جاتی- مہنگا اور سستا کوئی بات نہیں- کسی چیز بکنا گاہک کی مرضی پر زیادہ منحصر کرتا ہے- اسی لئے تو شاعر کہتا ہے آگے گاہک کی مرضی خریدے نہ خریدے ان دنوں تو سستی ہے-
جگ سونا ہے تیرے بغیر آنکھوں کا کیا حال ہواجب بھی دنیا بستی تھی اب بھی دنیا بستی ہے
شعر کی تشریح- یہ بہت ہی عمدہ شعر ہے- اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اے محبوب صنم تیرے بغیر دنیا سونی ہے- آنکھوں کا حال کیا ہوا کیسے بتائیں- آنکھیں تیرے بنا سونی ہو گئی ہیں- مگر پہلے بھی دنیا بستی تھی اب بھی دنیا بسی ہوئی ہے- تم نہ ہوئیے تو کیا ہوا-
آنسو تھے سو خشک ہوئے جی ہے کہ امڈا آتا ہےدل پہ گھٹا سی چھائی ہے کھلتی ہے نہ برستی ہے
شعر کی تشریح- اس شعر میں شاعر نے اپنے غم کا اظہار کیا ہے- فانی کہتے ہیں کہ آنکھوں کا آنسو خشک ہو گئے ہیں- آنسو سوکھ چکے ہیں- جی امڈ رہا ہے - دل رو رہا ہے مگر آنکھوں سے آنسوں نکل نہیں رہے ہیں کیوں کہ آنسو خشک ہو گئے ہیں- دل پر بادل سا چھایا ہوا ہے نہ کھل رہی نہ برس رہی ہے-
دل کا اجڑنا سہل سہی بسنا سہل نہیں ظالمبستی بسنا کھیل نہیں بستے بستے بستی ہے
شعر کی تشریح- اس شعر میں شاعر نے دل کے اجڑنے اور بسنے خیال ظاہر کیا ہے- شاعر کہتا ہے کہ دل کا اجڑنا آسان ہے، مشکل نہیں ہے - دل کا بسنا آسان نہیں ہے- بستی کا بسنا کوئی کھیل نہیں ہے بڑی مشکل سے بستی ہے- کوئی بھی بستی ایک دن میں نہیں بستی بلکہ بستے بستے بستے ہے-
فانیؔ جس میں آنسو کیا دل کے لہو کا کال نہ تھاہائے وہ آنکھ اب پانی کی دو بوندوں کو ترستی ہے
شعر کی تشریح - یہ غزل کا مقطع ہے- اس شعر کے شاعر فانی بدایونی ہیں- اس شعر میں فانی کہتے ہیں کہ درد و غم اتنا ہے کہ آنسو نکلتی ہی نہیں- دل خون کے آنسو روتا ہے- میری آنکھیں پانی کی دو بوندوں کے لئے ترستی ہے- آنکھوں سے آنسوں کے بدلے خون ٹپکتا ہے-