شاد عظیم آبادی کی غزلوں کا تشریح
تمناؤں میں الجھایا گیا ہوں
کھلونے دے کر بہلایا گیا ہوں
تشریح:- دیا گیا شعر شاد عظیم آبادی کی غزل سے لیا گیا ہے- یہ غزل کا مطلع ہے- اس شعر میں شاد فرماتے ہیں کہ اس دنیا میں مجھے الجھایا گیا اورمیی تمناؤں میں الجھایا عظیم خواہشات کی آرزو میں اُس طرح بہلایا گیا جس طرح بچے کو کھلونے دے کر بہلایا جاتا ہے ۔یہ دنیا کا دستور ہے یہاں انسان کو طرح طرح کی خواہشات دی جاتی ہے جن کو پورا ہونے کے انتظار میں انسان کی پوری زندگی گزر جاتی ہیں مگر وہ ساری کی ساری کبھی پوری نہیں ہوپاتی ہیں ۔
2۔ ہوں اس کوچے ہر ذرہ سے آگاہ
ادھر سے مدتوں آیا گیا ہوں
تشریح:- شاد اس شعر میں فرماتے ہیں محبوب کے اس کوچے کے ذرہ ذرہ سے میں واقفیت رکھتا ہوں کیوں کہ اس کوچے سےمیر ا گہرا تعلق ہے اور اکثر اس کوچے میں اپنے محبوب کے دیدار کے لئے آتا ہوں
3۔ دل مضطر سے پوچھ اے رونق بزم
میں خود آیا نہیں لایا گیا ہوں
تشریح:- شاد اس شعر میں فرماتے ہیں کہ اے رونق بزم میں تمہاری محفل میں خودہی چلا نہیں آیا ،میرے بے قرار دل سے پوچھ اس نے مجھے آپ کی محفل میں آنے کے لئے مجبور کیا ۔
4۔ نہ تھا میں معتقد اعجاز مے کا
بڑی مشکل سے منوایا گیا ہوں
تشریح:- شاد اس شعر میں فرماتے ہیں کہ میں شراب کے معجزے میں کوئی عقیدت نہیں رکھتا کہ اس میں کوئی تاثیر ہیں ۔ مجھے بڑی مشکل سےمجبور اکیا گیا اس کے لئے میں اس نشے میں گرفتار ہو گیا ہوں ۔
5۔ کجا میں اور کجا اے شاد یہ دنیا
کہا ں سے کس جگہ لایا گیا ہوں
تشریح:- شاد اس شعر میں خود سے مخاطب ہوکرفرماتے ہیں کہ کہاں میں اور کہاں یہ سفاک دنیا ۔میں کتنی پرسکون جگہ پر تھا اور کہا اس شورش زدہ اور پُر آشوب دنیا میں لایا گیا ہوں ۔