پریم چند کی افسانہ نگاری | پریم چند کی افسانہ نگاری کا جائزہ | Prem Chand ki Afsana Nigari
پریم چند |
یہ محض ایک اتفاق ہے کہ اردو افسانے کو ابتدائی دور میں ہی دو ایسے افسانہ نگار مل گئے جو ایک دوسرے سے قطعی مختلف مزاج رکھتے تھے۔ پریم چند ایک رجحان کی ترویج کر رہے تھے اور سجاد حیدر دوسرے نظریے کے علمبردار تھے ۔ لیکن پریم چند کی مقصدیت یلدرم کی رومانیت پر بازی لے گئی۔ مقصدیت اور اصلاح کے پہلو نے پریم چند کے فن کو اتنا چمکا دیا کہ انہیں سجاد حیدر سے بہت زیادہ مقلد مل گئے۔ سجاد حیدر کی رومانیت کی نیاز فتح پوری، مجنوں گورکھپوری ، مہدی الافادی اور قاضی عبدالغفار کے بعد کوئی خاص تقلید نہ کی جا سکی۔ جبکہ پریم چند کی مقصدیت کا سدرشن، علی عباس حسینی، اعظم کریوی وغیرہ نے تتبع کیا اور بعد کے افسانہ نگاروں نے اس روایت کو مزید آگے بڑھایا۔اسی لیے سمجھا جانے لگا کہ پریم چند اردو افسانے کے موجد ہیں۔ لیکن یہ خیال درست نہیں ہے۔ مختصر افسانے کی ابتداء کا سہرا تو سجاد حیدر یلدرم کے سر ہی باندھا جائے گا۔ البتہ فنی اعتبار سے پریم چند سجاد حیدر پر سبقت لے گئے ہیں۔ جس کا اعتراف خواجہ ذکریا بھی ان الفاظ میں کرتے ہیں۔ ”اردو کے بہت کم افسانہ نگار معیار مقدار میں ان کی برابری کر سکتے ہیں۔“
ادوار:۔
پریم چند کی افسانہ نگاری میں بتدریج ارتقاء نظر آتا ہے۔ ان کے پہلے افسانوی مجموعے ”سوز وطن “ سے لے کر آخری دور کے مجموعوں ”واردات “ اور ”زاد راہ“ کے افسانوں میں بڑا واضح فرق محسوس ہوتا ہے۔ اس لیے ہم ان کی افسانہ نگاری کو مختلف ادوار میں تقسیم کرتے ہیں-
پہلا دور 1909ء سے لے کر 1920ء کے عرصہ پر محیط ہے۔ دوسرا دور 1930ء سے 1932ء تک اور تیسرا دور جو نسبتاً مختصر دور ہے 1932ء سے 1936ء تک ان کی زندگی کے آخری چار سال کا احاطہ کرتا ہے۔ پہلے دور کے افسانوں میں رومانی تصورات نمایاں ہیں۔ دوسرے دور میں معاشرتی برائیوں کی اصلاح کی طرف توجہ دی ہے- اسی طرح سیاسی موضوعات بھی اس دور کی اہم خصوصیت ہے۔ اپنے مختصر اور آخری دور میں پریم چند کے ہاں فنی عظمت اور موضوعات کا تنوع نظر آتا ہے۔ اپنے آخری دور میں انہوں نے نا قابل فراموش افسانے لکھے۔ پریم چند کی افسانہ نگاری کا تجزیہ کرتے ہوئے ہم ان ادوار کو ملحوظ خاطر رکھیں گے اور انہی ادوار کو سامنے رکھ کر اُن کے فن کا تعین کرنے کوشش کریں گے۔
داستانوی رنگ اور ہندو تاریخ:۔
پہلے دور کے ابتدائی سالوں میں داستانوی اور رومانی رنگ غالب ہے۔ جذبہ حب الوطنی سے سرشار ہو کر پریم چند اپنا پہلا افسانوی مجموعہ ”سوز وطن“ کے نام سے 1909ء میں زمانہ پریس کانپور سے چھپواتے ہیں جو انگریز سرکار کو ”خطرہ کی گھنٹی “ محسوس ہوتا ہے اور اس کی تمام کاپیاں ضبط کر لی جاتی ہیں۔ اس کے بعد وہ تاریخ اور اصلاح معاشرہ کی جانب متوجہ ہوتے ہیں- اس وقت تک وہ افسانوی تکنیک سے نا واقف تھے اور طلسم ہو شربا کے اسیر تھے۔ 1909ء سے 1920ء تک پریم چند ”ہوبا“ کے مقام پر ڈپٹی انسپکٹر آف سکولز تھے۔ جہاں کے کھنڈرات انہیں ہندوؤں کی عظمت ِ گذشتہ کی یاد دلاتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ حالی کی طرح انہیں بھی اپنے افسانوں کے ذریعہ ہندو قوم کی ماضی کی شان و شوکت اجاگر کرنا چاہیے۔ چنانچہ ٠١٩١ء میں ”رانی سارندھا“ 1911ء میں ”راجہ ہردول“ اور 1912ء میں ”آلھا“ جیسے افسانے اسی جذبے کے تحت لکھے گئے۔
پریم چند کے دل میں ہندو راجوں اور رانیوںکی حوصلہ مندی اور خاندانی روایات کی پاسداری کا بڑا احترام تھا۔ ”رانی سارندھا“ میں انہوں نے ہندو قوم کے ماضی کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان سب افسانوں میں کسی نہ کسی تاریخی واقعہ کو دہرا کر ہندو قوم کو اسلاف کے کارنامے یاد دلانا مقصود ہے۔
اصلاح معاشرہ :۔
ان تاریخی اور نیم تاریخی افسانوں کے بعد اپنے دوسرے دور میں پریم چند نے قومی اور معاشرتی اصلاح کی طرف توجہ دی- انہوں نے ہندو معاشرے کی قبیح رسوم پر قلم اٹھایا اور بیوہ عورت کے مسائل، بے جوڑ شادی، جہیز کی لعنت اور چھوت چھات جیسے موضوعات پر افسانے لکھے۔ اس دور میں وہ ایک مصلح کی حیثیت سے اپنے معاشرے کو احترام ِ انسانیت اور مشرقی و مغربی تہذیب کے فرق اور اخلاق اقدار کی جانب متوجہ کرتے ہیں۔
سیاسی موضوعات:۔
افسانہ نگاری کے دوسرے دور میں پریم چند سیاست کے بکھیڑوں میں الجھ گئے تھے۔ یہ دور برصغیر میں تحریکوں کا دور تھا ۔ تحریک ِ خلافت، تحریک عدم تعاون، تحریک ِ ستہ گرہ، سول نافرمانی وغیرہ۔ برصغیر کے تمام باشندے ملک آزاد کرانے کا مطالبہ کر رہے تھے- پریم چند نے سیاسی حالات کا جائزہ لیتے ہوئے قلم کے ذریعہ اس مہم میں شرکت کی ٹھانی اور سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔ وہ اگرچہ کوئی سیاسی آدمی نہیں تھے اور نہ ہی انہوں نے باقاعدہ طور پر سیاست میں حصہ لیا۔ لیکن شاید وہ سماجی موضوعات کے ساتھ ساتھ سیاسی موضوعات پر بھی کھل کر اظہارِ خیال کرنا چاہتے تھے۔ اس لیے انہوں نے سرکاری ملازمت کا جو اگلے سے اتار پھینکا۔ یہی وجہ ہے کہ اس دور کے افسانوں میں سیاست کا رنگ بھی جھلکتا ہے۔
دیہاتی زندگی:۔
افسانہ نگاری کے دوسرے دور میں پریم چند نے دیہی زندگی کی طرف بھی توجہ دی کیونکہ پریم چند کا تعلق دیہات سے تھ-ا اس لیے انہوں نے دیہاتی زندگی کے مسائل کو اپنے بیشتر افسانوں کا موضوع بنایا۔ وہ دیہاتیوں کے مسائل سے بخوبی آگاہ تھے- اس لیے کسانوں اور مزدوروں کے دکھوں کو اپنے نوکِ قلم سے معاشرے میں اجاگر کرتے ہیں۔ ”پوس کی رات“ ،”سوا سیر گہیوں“ اور ان کے دیگر افسانے کسانوں کی غربت و افلاس کی عکاسی کرتے ہیں۔ پریم چند نے غریب کسان اور کاشتکار کے رہن سہن، اس کے افلاس اور دکھوں کی جیتی جاگتی تصویریں پیش کی ہیں۔”سوا سیر گیہوں“ پریم چند کا ایک ایسا افسانہ ہے جو دیہاتی کسان کی سادہ لوحی کے ساتھ ساتھ زمیندار مہاجن اور ساہوکار کی فریب کاری کا پردہ چاک کرتا ہے اور اس کے ظلم و تشدد اور مکر و فریب کے خلاف انسانی ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے۔ بقول ڈاکٹر سلام سندیلوی ” پریم چند کے سب سے اہم پلاٹ وہ ہیں جن میں ہندوستان کے کسانوں کی جیتی جاگتی تصویریں پیش کی گئی ہیں۔ پریم چند نے کسانوں کو ان کی گہری نیند سے بیدار کیا اور یہ محسوس کیا کہ ہندوستان کی آبادی کا بیشتر حصہ دیہاتوں پر مشتمل ہے۔ اگر دیہات کے باشندے بیدار ہو جاتے ہیں تو ہندوستان کی بیداری یقینی ہے۔“
فنی عظمت :۔
پریم چند کے افسانوں کا آخری دور مختصر عرصے پر محیط ہے لیکن یہی دور ان کی نظریات کی پختگی اور ترویج کا دور بھی ہے- اس دور کے افسانوں کے موضوعات بھی سیاسی زندگی سے متعلق ہیں لیکن فن اور معیار کے اعتبار سے پچھلے دونوں ادوار کے مقابلے میں بہت بلند ہیں۔”سوز وطن“ کے افسانوں ک بعد پریم چند کے قلم سے حج اکبر ،بوڑھی کاکی، دو بیل، نئی بیوی اور زادِ راہ جیسے افسانے تخلیق ہوئے اور پھر ان کا فن بتدریج ارتقائی منازل طے کرتا رہا۔ یہاں تک کہ ”کفن “جیسا افسانہ لکھ کر انہوں نے دنیائے ادب میں اپنی فنی صلاحیتوں کا لوہا منوالیا۔ ”کفن “ کی کہانی دو چماروں کی کہانی ہے جو بے حیائی اور ڈھٹائی میں اپنا جواب نہیں رکھتے۔ یہ ننگے بھوکے چمار اپنی کاہلی و سستی کی وجہ سے پورے گاؤں میں بدنام ہیں۔ بدھیا کے مرنے کے بعد اس کا شوہر مادھو اور اس کا سسر گھیسو اس کے کفن دفن کے لیے زمیندار سے پیسے مانگ کر لاتے ہیں اور پھر یہ سوچ کر کہ ”کفن تو لاش کے ساتھ جل جاتا ہے“وہ پیسے شراب و کباب میں اڑا دیتے ہیں۔
بہترین اسلوب:۔
آخری دور کے افسانوں میں پریم چند ایک عظیم افسانہ نگار دکھائی دیتے ہیں- اس دور کے افسانے مقامی ہونے کے باوجود آفاقی کہلانے کے مستحق قرار دئیے جا سکتے ہیں کیونکہ اب ان کے افسانوں میں وہ تمام خوبیاں پیدا ہو گئی تھیں جو اچھے اور معیاری افسانوں کا خاصہ سمجھی جاتی ہیں۔ ان کی زبان بھی صاف ہو گئی تھی اور اندازِ بیان میں بھی دلکشی آگئی تھی ۔وہ چھوٹے چھوٹے خوبصورت جملے استعمال کرنے لگے تھے۔ سادگی و پرکاری، متانت و سنجیدگی ان کی تحریر کے جوہر تھے۔ منظر کشی میں بھی انہیں کمال حاصل ہوگیا۔
تنوع :۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو پریم چند نے اپنے افسانوں میں زندگی کے ہر دو پہلوؤں المیہ و طربیہ کو سمو دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں ہر طبقے کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ وہ روہیلوں، بندیلوں اور راجپوتوں کی جنگ جو یا نہ صفات اور جرات مندانہ اقدار کا ذکر بھی کرتے ہیں اور ہندو مہاجنوں، ساہوکاروں، سیٹھوں اور زمینداروں کے ظلم و تشدد اور گھناؤنے کرداروں کو بھی بے نقاب کرتے ہیں اور غریب کسانوں، مفلس کا شتکاروں اور نیچی ذات کے چماروں کی بے بسی اور بے کسی کی المناک داستانیں رقم کرتے ہیں۔ ان کے ہاں رانی سارندھا جیسی جاںباز اور آن پر مٹنے والی رانیاں بھی ہیں اور کام چور و کاہل گھیسو اور مادھو جیسے المیہ کردار بھی ملتے ہیں۔
انسانی نفسیات:۔
انسان ایک ہی قسم کے واقعات سے کس طرح متاثر ہوتا ہے؟ اس کے تعجب، حیرت، رنج، غصہ، نفرت، حسد، بغض، رشک، رقابت اور اس قسم کے فطری جذبات کا اظہار کس طرح ہوتا ہے؟ یہ چیزیں سب انسانوں کے لیے یکساں ہیں اور اس لیے افسانوی بلندی حاصل کرنے کے لیے افسانہ نگار نفسیات سے زیادہ سے زیادہ کام لیتے ہیں۔ پریم چند کے افسانے نفسیاتی مطالعہ اور مشاہدہ پر ہیں۔ اس چیز سے پریم چند نے اس قدر کام لیا ہے کہ وہ ان کے طرز بیان کی ایک خصوصیت بن گئی ہے۔ مثلاً وہ جملوں میں جہاں تشبیہات کا استعمال کرتے ہیں تو انہیں نفسیاتی محسوسات کو کام میں لاتے ہیں۔ ایک جگہ لکھا ہے:
” ایک یتیم بچہ ماں کا تذکرہ سن کر رونے لگتا ہے۔ اسی طرح اور چھاکی کی یا د سے چمپت رائے کی آنکھوں میں آنسو چھلک آئے۔
اس حیثیت سے پریم چند کے متعلق ہم کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے اردو افسانوں میں حقیقت شعاری کی بہترین مثالیں پیش کی ہیں جن میں ہر جگہ عالم گیر حقائق، عام فطرت انسانی کی نفسیات اور بلندی خیال کو مدنظر رکھا ہے۔
حقیقت اور مقصدیت:۔
اسی طرح مجموعی حوالے سے پریم چند کے ہاں جذبات نگاری بھی، تنقید ِحیات ہے اور ترغیب و اصلاح بھی۔ اور یہی وہ معاشرتی اور سیاسی شعور تھا جس نے پریم چند کو حقیقت پسند افسانہ نگار بنایا اور پھر ان کے افسانے اخلاقی، معاشرتی اور سیاسی تقاضوں کی ترجمانی کرنے لگے۔ ان کے افسانوں میں ملک و قوم کے لیے ایثار و محبت کے جذبے بیدار ہوتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ پریم چند نے ایک ماہر نفسیات کی طرح محکوم قومیتوں کو عزم و ہمت کے گر سکھائے ہیں۔ انہوں نے اپنے افسانوں کے ذریعہ انسان دوستی اور وطن دوستی کی بہترین مثالیں پیش کی ہیں۔ یوں پریم چند کے ہاں سچی وطن دوستی، سماجی اصلاح کا جذبہ، دیہاتی زندگی کے مرقعے، طبقاتی کشمکش اور کردار نگاری کے خوبصوت نمونے ملتے ہیں۔ انہوں نے تخلیقی جبلت کو محض افسانہ نگاری کے لیے استعمال نہیں کیا بلکہ اس میں مقصدیت کی روح کو سمو کر ایک مصلح قوم کا کردار بھی ادا کیا ہے۔
مجموعی جائزہ:۔
اس حقیقت سے واقعی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ معیار و مقدار کے اعتبار سے پریم چند نے اردو ادب میں افسانے کی روایت کو مستحکم کیا اور انہوں نے ہی اردو افسانے کو ارتقائی منازل تک پہنچایا ۔ مختصر اردو افسانے کے لیے ان کی خدمات ناقابل ِ فراموش ہیں۔
بقول مولوی عبدالحق
ہندوستانی ادب میں پریم چند کے بڑے احسانات ہیں انہوں نے ادب کو زندگی کا ترجمان بنایا۔ زندگی کو شہر کے تنگ گلی کوچوں میں نہیں بلکہ دیہات کے لہلہاتے ہوئے کھیتوں میں جاکر دیکھا۔ انہوں نے بے زبانوں کو زبان دی ۔ ان کی بولی میں بولنے کی کوشش کی۔ پریم چند کے نزدیک آرٹ ایک کھونتی ہے۔ حقیقت کو لٹکانے کے لیے۔ سماج کو وہ بہتر اور برتر بنانا چاہتے تھے اور عدم تعاون کی تحریک کے بعد یہ ان کا مشن ہو گیا تھا ۔ پریم چند ہمارے ادب کے سرتاجوں میں سے تھے۔ وقتی مسائل کی اہمیت کو انہوں نے اس شدت سے محسوس کیا کہ فن کے معیار کو پر قربان کر دیا۔ افسانہ نگاری میں ان کا وہی مرتبہ ہے جو شاعری میں مولاناحالی کا۔“