موازنہ انیس و دبیر | انیس کی مرثیہ گوئی | دبیر کی مرثیہ گوئی | Moazna Anis o Dabir
میر انیس کا نام آتے ہی مرزا دبیر کا نام خود بخود ذہن میں ابھر آتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ مرثیہ گو شعراء میں صرف مرزا دبیر ہی ان کے ہم رتبہ کہے جا سکتے ہیں۔ معاصر کی حیثیت سے جتنے طویل عرصے تک یہ دونوں سایہ کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ رہے شائد ہی دوسرے ہم عصر شاعر ساتھ رہے ہوں۔ ان کی زندگی اور فن دونوں میں عجیب طرح کی مماثلت ہے۔ دونوں کی تاریخ پیدائش اور وفات تقریباً ایک ہی ہے۔ عمریں بھی دونوں نے تقریباً بر ابر کی پائیں۔ میرانیس کے استاد میر خلیق اور دبیر کے استاد میر ضمیر بھی ہم عصر و ہم عمر تھے ۔
دونوں کو اہل بیت سے خاص لگائو اور فن مرثیہ نگاری سے خاص دلچسپی تھی۔ دونوں نے اپنے ماحول کی مقبول ترین صنف کو چھوڑ کر مرثیہ کی طرف توجہ کی ۔ دونوں نے اپنے دائرہ شاعری کو سلام، رباعی اور مرثیہ تک محدود رکھا۔ دونوں نے اس شاعرانہ فضاء میں ترتیب پائی اور پروان چڑھے جو دہلی کی مد مقابل بن کر دبستان لکھنو کے نام سے وجود میں آئی۔ دونوں مجالس عزا میں خاص اہتمام سے شریک ہوتے تھے اور دونوں کا انداز مرثیہ خوانی حاضرین مجلس کی توجہ کا مرکز بنتا تھا۔ دونوں نے اپنے اپنے عقیدت مندوں اور شاگردوں کے بڑے گروہ پیدا کر لئے تھے اور لکھنو کی فضائے شاعرانہ ان کے اور ان کے شاگردوں کی معاصرانہ چھیڑ چھاڑ کے سبب آباد اور پر رونق رہی ۔ میر انیس نے دبیر سے صرف ایک سال پہلے جہانِ فانی کو خیر آباد کہا۔ ان کی وفات پر بہت سے شاعروں نے قطعات تاریخ کہے لیکن مشہور تو دبیر کا کہا ہوا قطعہ اپنی مثال آپ ہے۔ وہ قطعہ تاریخ جس کا مصرع ہے۔
طور سینا بے کلیم اللہ و منبر بے انیس
ایسی صور ت میں یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی جگہ ان میں سے ایک کا ذکر آئے اور دوسرے کا نام نہ لیا جائے۔ قدیم تذکرہ نگاروں سے لے کر آج تک کے ناقدین میں سے شائد ہی کوئی ایسا ہوجس نے مرثیہ نگاری پر کچھ لکھا ہوا اور ان دونوں کا ذکر ساتھ ساتھ نہ کیا ہو۔ لیکن ان کی معاصرانہ چشمک اور ان کے شاگردوں کی ادبی معرکہ آرائیوں کا ذکر ہر جگہ ملتا ہے۔
شبلی کی موازنہ انیس و دبیر:۔
مولانا شبلی نعمانی کے جادو نگار قلم نے ”موازنہ انیس دبیر“ کے ذریعے میرانیس اور مرزا دبیر کے درمیان ایسی حدفاضل قائم کر دی کہ ہمارے علمی ادبی حلقوں میں میرانیس کو مرزا دبیر سے بہتر مرثیہ نگار سمجھا جانے لگا۔ اوریہی مولانا شبلی کا مقصود تھا۔ لیکن بعض لوگ شبلی کے طرز تنقید سے مطمئن نہ ہوئے ان کے خیال میں شبلی نے موازنہ انیس و دبیر میں دبیر کے ساتھ ذیادتی کی ہے اور ان کا پلہ نیچا کرنے کے لئے ڈھونڈ ڈھونڈ کر میرانیس کی خوبیاں اور ان کی خامیاں گنوائی ہیں۔ چنانچہ شبلی کے جوا ب میں چودھری سید النظیر الحسن نے ایک معرکتہ آرا کتاب ”المیزان “ کے نام سے شبلی کی زندگی میں شائع کی ۔ اور اس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ مرزا دبیر بہ حیثیت مرثیہ نگار میر انیس سے کسی طرح کم نہیں ہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ نظیرالحسن نے کلام دبیر کے بہت سے ایسے محاسن ہمیشہ کے لئے اجاگر کر دئیے جو مولانا شبلی کے اثر سے دب گئے تھے۔ لیکن ان کی کتاب موازنہ کا جواب نہ دے سکی۔
موازنہ:۔
میرانیس اور مرزا دبیر صاحب کمال مرثیہ گو ، ہم عصر شعراءاپنے اپنے میدان ِ میں لاجواب ہیں۔ البتہ مولانا شبلی نے ”موازنہ انیس دیبر“ میں میر انیس کی حمایت کی ہے۔ درحقیقت اگر میر انیس اپنی سادگی، سلاست اور بے مثل جذبات نگاری کی وجہ سے مشہور ہیں تو شوکت ِالفاط ، مضمون کی بلندی اور خوبی ادا میں مرزا دبیر بھی لاجواب ہیں۔
مرزا دبیر کے کلام کا خاص جوہر زور بیان ، شوکت الفاظ ، بلندی ، تخیل اور صنائع کا استعمال ہے۔ گریہ انگیر غلط روایات انہوں نے میر انیس سے بہت زیادہ نظم کی ہیں۔ لیکن واقعہ نگاری میں ربط و تسلسل اور مضمون کی پیوستگی جو انیس کا خاصہ ہے۔ مرزا دبیرکے ہاں نہیں ہے۔ کردار نگاری کی نزاکت، بلاغت کے تقاضے، تصویر کا حسن اور واقعات و جذبات کے وہ مرقعے جو میرانیس نے بظاہر کافی احتیاط اور بے ساختگی سے پیش کئے ہیں مرزا دبیر سے ممکن نہیں ہو سکے ۔ لیکن جہاں تک خیالات کی بلند پروازی علمی اصطلاحات، عربی فقروں کی تضمین اور ایجاد مضامین میں ان کا فن خوب چمکا ہے۔ اور یہ ان ہی کا خاصہ ہے کہ وہ ہر واقعہ کو بیان کرنے میں تشبیہ اور استعارے اور تلمیح و صنائع کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔ جس سے اشعار کی شان و شوکت بڑھ جاتی ہے۔
مرزا دبیر کے ہاں مناظر کی تصویر کشی میں اصلیت کا کافی رنگ ملتا ہے۔ اور یہی وہ مقام ہے جہاں وہ میر انیس کے ہم پلہ ہوتے ہیں ۔ ان مناظر کی تصاویر کے علاوہ دبیر نے تلوار اور گھوڑے کی تعریف میں بھی پرواز خیال اور ایجاز مضامین کا بہت ثبوت دیا ہے ۔ جس سے ان کی طبیعت میں خلاقی کا عنصر غالب تھا۔
مرزا دبیر نے مرثیہ کا صرف ایک جزو یعنی مناظر فطرت ہر جگہ معیار سے پست لکھا ہے اور میر انیس کے مقابلے میں نہایت ادنیٰ اور بالکل بے لطف اس کے علاوہ روزمرہ و محاورہ صنائع لفظی و معنوی، استعارہ وتشبیہ، جذبات و احساسات، حقائق و واقعات اور لوازم و رزم فصیح و بلیغ بھی لکھے ہیں اور غلط اور بے محل بھی۔ اعلیٰ اور ادنیٰ بھی۔ پر اثر بھی اور بے تاثیر بھی۔ مرزا دبیر کا کوئی مرثیہ دیکھیے مشکل سے دس بیس بند مسلسل ایسے ملیں گے جو بے عیب ہوں۔ جن میں کوئی حرف دبتا یا گرتا نہ ہو یا تعقید نہ ہو یا معنی میں پیچیدگی نہ ہو، یا طرز ادا بلاغت کے خلاف نہ ہو یا بے محل شوکت الفاظ نہ ہو۔ یا ناکام خیال آرائی نہ ہو یا بے لطف اثر بیان نہ ہو
دبیر:۔
گرمی دکھائی روشنی طورصبح نے
ٹھنڈے چراغ کردئیے کافور صبح نے
انیس:۔
چھپنا وہ ماہتاب کا وہ صبح کا ظہور
یاد خدا میں زمزمہ پروازی طیور
دبیر
دریا میں آنکھ بیٹھ گئی ہے حباب کی
حدت ہی موج موج میں تیر شہاب کی
انیس
خود نہر عقلمہ کے سوکھے ہوئے تھے لب
خیمے جو تھے حبابوں کے تپتے تھے سب کے سب
مرزا دبیر کے کلام میں وہ فصاحت و بلاغت اور شائستگی نہیں جو میر انیس کے کلام میں ہے۔ بعض الفاظ کو مرزا دبیرنے ایسی تراکیب کے ساتھ استعمال کیا ہے کہ ان کی وجہ سے ان میں نہایت ثقل اور بھدا پن پیدا ہو گیا ہے۔ یہاں پر ایک مثال میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ایک ہی لفظ میرانیس اور مرزا دبیر دونوں نے استعمال کیا ہے۔ ھل اتی، انما، قل کفی یہ الفاظ حضرت علی کے فضائل کی تلمیحات ہیں دونوں کا موازنہ ملاحظہ ہو۔
دبیر
اہل عطا میں تاج سر ھل اَ تی ہیں یہ اغیار لاف زن ہیں شہ لافتی ہیں یہ
خورشید انور فلک انما ہیں یہ کافی ہے شرف کہ شہ قل کفی ہیں یہ
انیس
حق نے کیا عطا پہ عطا حل آتی کسے
حاصل ہوا ہے مرتبہ لافتی کسے
کونین میں ملا شرف انما کسے
کہتی ہے خلق، بادشہ قل کفی کسے
حاصل ہوا ہے مرتبہ لافتی کسے
کونین میں ملا شرف انما کسے
کہتی ہے خلق، بادشہ قل کفی کسے
فصاحت کے بعد بندش کی سستی اور ناہمواری ہے۔ میر انیس اور مرزا دبیر میں اصل جو چیز امتیاز کرتی ہے وہ الفاظ کی ترکیب ، نشست اور بندش کا فرق ہے۔ میرانیس کے کلام میں بندش کی چستی ، ترکیب کی دلآویزی ، الفاظ کا تناسب اور برجستگی و سلاست موجود ہے اوریہی چیزیں مرزا دبیر کے ہاں بہت کم ہیں ۔ ان کے یہاں مصرع میں ایک لفظ نہایت بلند اور شاندار ہے تو دوسرا پست۔ دو تین بند صاف اور سلیس نکل جاتے ہیں پھر تعقید اور بے ربطی شروع ہو جاتی ہے۔
دبیر
اے دبدبہ نظم دو عالم کو ہلا دے
اے طنطنہ طبع جزو کل کو ملا دے
اے معجزہ فکر فصاحت کو جلا دے
اے زمزمہ نطق بلاغت کا صلہ دے
انیس
بیٹے بھی نہیں گود کا پالا بھی نہیں ہے
ان کا تو کوئی پوچھنے والا بھی نہیں ہے
مرزا دبیر کے یہاں تشبیہات و استعارات کا بھی خاص جوہر ہے۔ مرزا دبیر اپنی دقت آفرینی سے ایسے عجیب و غریب اور نادر تشبیہات و استعارات پیدا کرتے ہیں کہ کوئی اس کے متعلق سوچ بھی نہیں سکتا ۔ لیکن وہ اکثر اس قدر بلند اُڑتے ہیں کہ بالکل غائب ہو جاتے ہیں ۔ اس کے مقابلے میں میرانیس کے تشبیہات و استعارات کلام کو حسین بنا دیتے ہیں۔ اور اس میں معنی کی لچک بھی پیدا کرتے ہیں۔
دبیر
شمشیر نے جل تھل جو بھرے قاف تا قاف
پریاں ہوئیں مرغابیاں گرداب بنا قاف
انیس
وہ گورے گورے جسم قبائیں و تنگ تنگ
زیور کی طرح جسم پہ زیبا سلاخ جنگ
میر انیس اور مرزا دبیر میں اصلی امتیاز پیدا کرنے والی چیز خیال بندی اور دقت پسندی ہے۔ اور یہی چیز مرزا دبیر کے تاج ِ کمال کا طرہ ہے۔ خیال آفرینی، دقت پسندی، جدت ، استعارات، اختراع تشبیہات، شاعرانہ استدلال شدت مبالغہ میں ان کا جواب نہیں ۔ لیکن وہ اس زور کو سنبھال نہیں سکے اس وجہ سے کہیں خامی ، کہیں تعقید اور کہیں اغراق ہو جاتا ہے۔ مضمون آفرینی کے سلسلے میں ایک مثال ملاحظہ ہو۔
جب سرنگوں ہوا علم کہکشانِ شب خورشید کے نشاں نے مٹایا نشان ِشب
تیر شہاب سے ہوئی خالی کمان شب
تانی نہ پھر شعاع قمر نے سنان شب
آ ئی جو صبح زیور جنگی سنوار کے
شب نے زرہ ستاروں کی رکھ دی اتار کے
بلاغت میں میرانیس اور مرزادبیر کی شاعری کی سرحدیں بالکل الگ ہوجاتی ہیں۔ مرزا دبیر کے کلام میں کہیں بھی بلاغت کا وصف نہیں پایا جاتا۔ نوحہ ، غم، فخر و ادعا، طنز و تشیع، ہجو و بد گوئی، سوال و جواب، گلہ شکوہ، کسی بھی مضمون کو مرزا دیبر حالت کے موافق نہیں لکھ سکے۔
مثلاً ایک مرثیہ میں امام حسین کی شہادت پر حضرت شہر بانو کا جو نوحہ لکھا ہے اس میں لکھتے ہیں۔
تم جانو جہاں سے شہ عالی کو لے آؤ
حضرت سے میں گذری میرے والی کو لے آؤ
تم جانو جہاں سے“ اس محاورے کے ابتذال سے قطع نظر کر کے یہ امر کس قدر خلا ف حال ہے کہ کوئی شریف عورت یہ کہے کہ میں اپنے بیٹے سے گزری میر ے شوہر کو جہاں سے ممکن ہو پیدا کرو۔
اس طرح بہت سے مثالیں شبلی بتاتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے مرزا دبیر کی طبیعت میں اصولی بلاغت کا لحاظ نہ تھا۔ ذہن صحیح طور پر متوازن نہ تھا۔ اور مذاق اصلی حد تک سلیم نہ تھا۔ وہ بے محل اور خلاف موقع بات کہہ جاتے ہیں اور ان کو خبر بھی نہیں ہوتی کہ کیا بات کہی یا کس طرح کہنی چاہیے تھی۔ ایک جگہ حضور کی زبان سے مرزا دبیر نے یہ مضمون اد ا کیا ہے۔
محبوب ہوں خدائے ذوی الاحترام کا
نانا ہوں میں حسین علیہ السلام کا
آنحضرت کی زبا ن سے امام صاحب کے لئے ”علیہ السلام“ کا لفظ کس قدر ناموزوں ہے۔ اس طرح ایک اور جگہ میدان کربلا میں ایک مسافر اترتا ہے اورحضرت امام صاحب سے ان کا نام پوچھتا ہے- مرزا دبیر کے قول کے مطابق امام صاحب جواب دیتے ہیں
ہمیں حسین علیہ السلام کہتے ہیں
خود اپنے آپ کو علیہ السلام کہنا اور بھی نامناسب ہے۔ اسی موقع پر میرانیس لکھتے ہیں
یہ تو نہ کہہ سکے کہ شہ مشرقین ہوں
مولا نے سر جھکا کے کہا میں حسین ہوں
ایک جگہ مرزا دبیر لکھتے ہیں ۔
”زیر قدم والدہ فردوس بریں ہے“
یہ ترکیب فنی نفسہہ کچھ خوبصورت اور لطیف و نازک نہیں لیکن میر انیس کے اس مصرع کے سامنے بہت بھدی ہو جاتی ہے۔
”کہتے ہیں ماں کے پاؤں کے نیچے بہشت ہے“
ڈاکٹر ابواللیث صدیقی فرماتے ہیں کہ
” انیس و دبیر کی شاعری میں دہلی اور لکھنو کے رنگ کا فرق ہے۔“
مجموعی جائزہ:۔
مولانا شبلی نعمانی نے ”موازنہ انیس و دبیر “ میں مرزا دبیر پر میر انیس کو ترجیح دی ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ مرزا دبیر کا کلا م قابل توجہ نہیں، مرزا صاحب بھی صفِ اول کے شاعر اور ایک بلند پایہ استاد فن ہیں ان کا رنگ میر انیس کے رنگ سے جدا ہے اور ایسی انفرادیت رکھتا ہے جس کی مثال اردو مرثیہ کی تاریخ میں نظر نہیں آتی۔ دراصل دو دبستان شروع ہی سے ساتھ چل رہے ہیں ایک کی نظر صرف زبان کی سادگی اور جذبے کی نرم روی پر رہتی ہے۔ دوسرا نگین بیانی اور خروش الفاظ پر جان چھڑکتا ہے۔ دونوں کی الگ الگ حیثیت و اہمیت ہے- ان میں سے کوئی اسلوب غیر ادبی یا غیر شاعرانہ نہیں ہے۔ خارجی حالات بدلتے ہیں تو ہماری داخلی دنیا بھی بدل جاتی ہے۔ پسندیدگی و ناپسندیدگی کے معیار کچھ سے کچھ ہو جاتے ہیں- ایک زمانہ تھا کہ صناعی سب کچھ تھی ۔ سادگی معیوب تھی آج سادگی سب کچھ ہے صناع نا مقبول ہے۔ لیکن پھر بھی بقول سید فیاض محمود کہ
” اثر اندازی کی بناء پر میر انیس کا پلہ دبیر پر بھاری ہے۔“