تعلیم کی اہمیت پر مضمون | تعلیمی زوال نے دیا ارتداد کا پتہ
تعلیم ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہے، امیر ہو یا غریب، شاہ ہو یا گدا ، بادی ہو یا شہری، ہر ایک کو اس کی ضرورت ہے- تعلیم کے بغیر زندگی اندھیری ہے- جس میں نہ روشنی ہے اور نہ ہی کوئی لذت- تعلیم کے بغیر انسان ترقی بھی نہیں کرسکتا- اس کی ترقیوں کا راز اسی پر منحصر ہے- تعلیم ہی سے انسانوں اور حیوانوں کے مابین فرق معلوم ہوتا ہے- اس کے بغیر گویا کہ دونوں یکساں ہیں- اسی تعلیم کے آگے ترقیوں نے گھٹنے ٹیک دۓ- حتی کہ چاند تاروں کو بھی رشک آنے لگا- اسی تعلیم نے وقت کے بڑے بڑے سوپر پاور طاقتوں کو زیر کیا اور ایوان باطل میں زلزلہ بپا کردیا- قرآن پاک میں تعلیم کے سلسلہ میں بار بار تاکید آٸی ہے- سب سے پہلی وحی جو آپ ﷺ پر نازل ہوٸی- وہ بھی تعلیم کی اہمیت و افادیت پر دال ہے- زبان رسالت نے بھی اس کی طرف توجہ دلاٸی اور یہاں تک فرما دیا کہ اتنا علم کا سیکھنا، جس سے کہ انسان اچھی بری، حلال و حرام کی تمیز کر لے، لازم و ضروی ہے- آج موجودہ نٸ نسل کا جو المیہ ہے، وہ یہی کہ تعلیم سے اسے بوریت محسوس ہوتی ہے- علم کے نام سنتے ہی وہ گھوڑے کی طرح بدکتنے لگتی ہے- دنیا کی تمام مصروفیات اسے محبوب لیکن علم کی مصروفیت سے خاصی دشمنی ہے ہے- نتیجہ یہ ہے کہ یہ نسل مذہبی تعلیمات سے کوسوں دور جاچکی ہے- مذہب کے نام سے بالکل عاری ہیں- اخلاق و عادات، طور و طریق، رہن سہن، معاشرتی زندگی کا آداب و ڈھنگ، گویا کہ حیوانیت کا لبادہ اوڑھ لیا ہے- نٸ نسل میں تعلیمی زوال روز افزوں بڑھتا ہی جارہا ہے- مکمل طور پر انحطاط کا شکار ہے، جس کا نتیجہ یہ دیکھنے کو مل رہا ہے کہ ہماری نٸ نسلیں ارتداد کی زد میں ہیں- علاقہ کا علاقہ مرتد ہو رہا ہے اور اسلام کو الوداع کہ رہا ہے اور یہ سلسلہ شدت اختیار کر رہا ہے- بہت افسوس ہوتا ہے کہ جس اسلام کی خاطر لوگوں نے ایسی ایسی قربنیاں دیں، جس کی نظیر ملنا مشکل ہے- اسلام کی آبیاری میں بے شمار انسانوں کا خون شامل ہے، لیکن چونکہ ہمیں اسلام کی خاطر کوٸی قربانی نہیں دینی پڑی اور بلا مشقت و محنت کے ہم تک یہ پہنچا تو ہم اس کی قدر بھول گئے- ہم نے اس کو کھلونا سمجھ لیا ہے، جیسے چاہتے ہیں استعمال کرتے ہیں، جو کہ بہت بڑی حماقت ہے-
تعلیم کی اہمیت اور افادیت | تعلیم کی ضرورت
آج جب کہ پروانہ وار لوگ مرتد ہو رہے ہیں اور اسلام کو چھوڑ رہے ہیں اور ہمارا حال یہ ہے کہ ہم خاموش تماشاٸی بنے بیٹھے ہیں اس کی وجہ یہ ہے ک ہم نے اس کی اشاعت و ترویج میں دلچسپی نہیں لی ہم نے اس کو لوگوں تک پہنچانے کیلۓ کوٸی تدبیر نہیں کی اور نہ ہی اب کر رہے ہیں جبکہ غیروں کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے مذہب کی ترویج و شاعت میں پوری تواناٸی صرف کر رہے ہیں اور اسلام کے خلاف محاذ کھولے بیٹھا ہے- ان کی کوشش یہ ہے کہ پوری دنیا میں اسلام کی تعلیمات پر پردہ پڑ جاۓ اور سارے عالم بلکہ خود ان کے اداروں میں ہماری تعلیم کا راج ہوجاۓ اور اس معاملہ میں بہت حد تک وہ کامیاب بھی ہو چکے ہیں اور ہو رہے ہیں- آج مسلمانوں کے بعض ادارے ایسے ہیں جن میں اسلامیات کے ساتھ ان کی تعلیمات بھی شامل ہیں لیکن ان کی تعلیمات زیادہ کار گر ثابت ہو رہی ہیں اور پڑھنے پڑھانے والے اس سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں اور مسلمانوں کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں بچیوں کی تعلیم اسی ماحول سے شروع کرتے ہیں جس ماحول میں ہر طرف کفر ہی کفر ہے- اندھیرا ہی اندھیرا ہے- الحاد کی حکمرانی ہے- یوربین کلچر غالب ہے- اس طریقہ کی نسل اس ماحول میں پروان چڑتی ہے تو نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ آگے چل کر اس کی تعلیمات سے متاثر ہو کر ارتداد کا شکار ہو جاتی ہے اور اسلام کو خیر آباد کہ دیتی ہے- نتیجہ ہمارے سامنے ہے-
ہر طرف ارتداد کا ایک طوفان بپا ہے- ایک سیلاب آیا ہوا ہے اور اس طوفان کو روکنا کوئی آسان سا کام نہیں آج ہم دیکھ رہے ہیں- کتنی ہماری مسلم لڑکیاں مرتد ہوکر غیروں کے ساتھ شادیاں رچا چکی ہیں اور رچا رہی ہیں- اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ میں دے رہی ہیں- ابھی فیالحال کا واقعہ ہے کہ مہاراشٹر کے کسی گاٶں میں جہاں چار پانچ سو کی آبادی تھی لیکن معلوم ہوا کہ پورا کا پورا گاٶں مرتد ہوگیا اور اسلام کو الوداع کہ دیا- یہ اس لۓ ہوا کہ وہاں کے لڑکی لڑکیوں کی تعلیم براہ راست غیروں کے اسکولوں سے ہوئی اور اس ماحول کو سیکھ کر اپنے اپنے گھروں میں وہی ماحول نافذ کیا- جس کے زد میں پورا علاقہ ارتداد کا شکار ہوگیا- اس سے پہلے بھی اس طرح کے واقعات ہوچکے ہیں اور یہ سلسہ تسلسل کے ساتھ جاری و ساری ہے- وہ تو اپنے مشن میں زور و شور کے ساتھ لگے ہیں اور اس میں کوٸی کسر اٹھا نہیں رکھی ہے- ہمارا حال یہ ہے کہ اپنی تعلیمات اور اس کی ترویج و اشاعت میں زوال کا شکار ہیں اور روز افزوں ہمارے زوال میں تیزی آرہی ہے- ہمارے پاس کوٸی ایسا اسکول نہیں جہاں ہم بچوں کو دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دین پر بھی کار بند رکھ سکیں- سواۓ چند کے جو نا کے برابر ہے اور اگر ہے بھی تو براۓ نام- اس لۓ ایسے ماحول میں ہماری ذمہ داریاں دوبھر ہوجاتی ہیں کہ ہم اس اٹھتے ہوے طوفان سے مقابلہ کریں- اس کو روکنے کی کوشش کریں اور اپنے اس نٸ نسل کو اسلام پر باقی رکھنے کیلۓ کچھ تدبیریں کریں- کچھ ایس حکمت عملی اپناٸیں جس سے ہم اس میں تعلیمی بیداری لا سکیں اور اس کو ارتداد سے بچا سکیں-
ہمیں اپنے طریقہ دعوت میں تبدیلی لانی ہوگی- یاد رہے دعوت منصوص ہے- طریقہ دعوت منصوص نہیں ہے- ہمیں کچھ وقت ان مسلم لڑکیوں کیلۓ بھی نکالنا ہوگا جو اسلام سے دور رہ کر اسکولوں اور کالجوں میں زیر تعلیم ہیں اور سراپا یورپین کلچر میں جی رہی ہیں- ان کے سامنے ان کے تقاضے کے مطابق قرآن کی بتاٸی ہوٸی حکمت کا پیکر بن کر ان کے سامنے اسلام پیش کرنا ہوگا- اول مرحلہ میں ان کو کچھ رخصت دی جاٸے گی تاکہ وہ اسلام سے قریب ہو سکے- اگر اس طرح کی کوششیں رہیں اور ہمارا یہ سلسلہ برقرار رہا تو فضا بدل سکتی ہے اور یہ سیلاب تھم سکتا ہے-